سورة النحل - آیت 63

تَاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ کی قسم ! ہم نے آپ سے پہلے گزر جانے والی امتوں (٣٧) کے پاس رسول بھیجے تھے، تو شیطان نے ان کے اعمال (بد) کو ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا دیا، پس وہ آج ان کا دوست ہے اور ان کے لیے (آخرت میں) دردناک عذاب ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَا....: اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کی قسم کھا کر فرمایا اور اپنی عظمت کے اظہار کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا کہ ’’ہم‘‘ نے رسول بھیجے، ورنہ اللہ تعالیٰ تو ایک ہے۔ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ : تو شیطان جو ازلی دشمن تھا، اس نے ان کے وہی برے اعمال جو وہ کرتے تھے، مثلاً کفر و شرک اور دوسری کمینگیاں، وہ ان کے لیے ایسے خوش نما اور خوبصورت بنا دیے کہ انھوں نے سمجھا ہم بہت اچھے کام کر رہے ہیں، چنانچہ اسی دھوکے میں انھوں نے رسولوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ....: تو وہی جو ہمیشہ کا دشمن تھا آج ان کا دوست بن گیا اور ظاہر ہے کہ جہاں ان کا دوست جائے گا اس کے ساتھ ہی وہ بھی عذابِ الیم میں جائیں گے۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ شیطان جو پہلی کافر قوموں کا دوست بنا تھا آج ان کفار عرب کا بھی وہی دوست ہے اور ان کا نتیجہ بھی وہی ہے جو ان کا ہوا۔ مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے کہ آپ ان کفار کی حرکتوں سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر نہ ہوں، پہلے بھی ایسے ہوتا رہا ہے۔