سورة النحل - آیت 62

وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا يَكْرَهُونَ وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ الْحُسْنَىٰ ۖ لَا جَرَمَ أَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَأَنَّهُم مُّفْرَطُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور وہ اللہ کی طرف ایسی چیزوں کی نسبت (٣٦) کرتے ہیں جنہیں وہ اپنے لیے برا سمجھتے ہیں اور اپنی زبانوں سے جھوٹ کہتے ہیں کہ بیشک بھلائی انہی کے لیے ہوگی، بلا شبہ انہی کے لیے جہنم کی ااگ ہے اور وہی (جنہمیوں) کے آگے آگے ہوں گے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ يَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا يَكْرَهُوْنَ : مثلاً یہ مشرک اپنے لیے پسند نہیں کرتے کہ ان کی ملکیت کا کوئی دوسرا بھی مالک بنے، مگر اللہ کی ملکیت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ (دیکھیے روم : ۲۸) اپنے قاصد کی تکریم چاہتے ہیں مگر اللہ کا پیغام لانے والوں سے ٹھٹھا کرتے ہیں، اپنے لیے گالی برداشت نہیں کرتے مگر اللہ کو گالی دیتے ہیں، مثلاً یہ کہنا کہ اللہ کی اولاد ہے، اس کے لیے گالی ہے اور کئی بدبخت ایسے ہیں کہ اللہ نے انھیں سب کچھ دیا اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کو صاف گالیاں دیتے ہیں، پھر اپنے لیے بیٹے اور اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ غرض جو کچھ وہ اپنے غلاموں کی طرف سے اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اللہ کے غلام بلکہ مخلوق ہو کر وہ ساری بدتمیزیاں اس کے ساتھ کرتے ہیں، وہ پھر بھی صبر کرتا ہے اور مہلت دیتا ہے۔ (سبحان اللہ) وَ تَصِفُ اَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ : کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں چین اور خوش حالی ملی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کا ہم پر خوش ہونا ثابت ہوتا ہے، اس لیے اگر آخرت واقعی ہوئی تو وہاں ہمیں یہ سب کچھ ملے گا۔ دیکھیے سورۂ مریم (۷۷ تا ۸۰)، سورۂ حٰمٓ السجدہ (۵۰) اور سورۂ کہف (۳۶)۔ وَ اَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ:’’ مُفْرَطُوْنَ ‘‘ باب افعال سے اسم مفعول ہے۔ ’’فَرَطٌ‘‘ اسے کہتے ہیں جسے کوئی قوم اپنے سے پہلے بھیج دے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَی الْحَوْضِ )) [ بخاری، الرقاق، باب في الحوض : ۶۵۷۵، عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ] ’’میں حوض پر تم سے پہلے جا کر تمھارے لیے ضروریات کا بندوبست کرنے والا ہوں۔‘‘ یعنی کوئی شک نہیں کہ انھی کے لیے آگ ہے اور یہ مشرک دوسرے گناہ گاروں سے پہلے وہاں پہنچائے جانے والے ہیں۔ ’’ مُفْرَطُوْنَ ‘‘ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ وہ دوزخ میں جھونک دیے جانے کے بعد وہیں چھوڑ دیے جائیں گے اور انھیں قطعی فراموش کر دیا جائے گا، وہیں پڑے سڑتے رہیں گے، فرمایا : ﴿ وَ قِيْلَ الْيَوْمَ نَنْسٰىكُمْ كَمَا نَسِيْتُمْ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هٰذَا ﴾ [ الجاثیۃ : ۳۴ ] ’’اور کہہ دیا جائے گا کہ آج ہم تمھیں بھلا دیں گے جیسے تم نے اپنے اس دن کے ملنے کو بھلا دیا۔‘‘ عرب کہتے ہیں : ’’ مَا أَفْرَطْتُ وَرَائِيْ أَحَدًا‘‘ ’’میں نے اپنے پیچھے کسی کو نہیں چھوڑا۔‘‘ مفسرین نے دونوں معانی بیان کیے ہیں اور دونوں باتیں ایک ہی وقت میں ہو سکتی ہیں۔