وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ ۙ وَلَهُم مَّا يَشْتَهُونَ
اور وہ اللہ کی بیٹیاں (٣٢) ثابت کرتے ہیں، اس کی ذات اس سے پاک ہے، اور اپنے لیے وہ چیز جس کی وہ خواہش کرتے ہیں۔
وَ يَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ....: یہ ان کے اللہ تعالیٰ پر دو عیب لگانے کا بیان ہے، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد قرار دی، حالانکہ وہ اولاد سے پاک ہے۔ دوسرا عیب یہ کہ فرشتوں کو جو اللہ کے بندے ہیں، اللہ کی اولاد قرار دیا اور اولاد بھی مؤنث، جبکہ وہ اپنے لیے لڑکے پسند کرتے ہیں، لڑکیوں کو اپنے لیے باعث ذلت قرار دیتے ہیں، یہ کتنی بڑی بے انصافی ہے۔ درمیان میں اللہ تعالیٰ نے ’’سُبْحٰنَهٗ ‘‘ (وہ پاک ہے) کہہ کر اپنی ذات سے ہر قسم کی اولاد کی نفی فرمائی، خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، کیونکہ پھر اس کی بیوی بھی ماننا پڑے گی، جب کہ خاوند بیوی کا محتاج ہوتا ہے اور اولاد باپ کی شریک اور جانشین ہوتی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ محتاجی، شرکت اور زوال تینوں سے پاک ہے، کیونکہ یہ تینوں اس کے لیے عیب ہیں، وہ ’’ لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ‘‘ ہے اور وہ اکیلا ہی غنی ہے، باقی سب اس کے محتاج ہیں، فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ﴾ [ فاطر : ۱۵ ] ’’اے لوگو! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بے پروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔‘‘ صرف اسی کے لیے بقا ہے، باقی سب کچھ فانی ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۱۰۱)، سورۂ بنی اسرائیل (۴۰)، سورۂ صافات (۱۵۱ تا ۱۵۴)، سورۂ زخرف (۱۱) اور سورۂ نجم (۲۱، ۲۲)۔