أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيِّئَاتِ أَن يَخْسِفَ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
کیا جو لوگ (اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچانے کے لیے) بد ترین تدبیریں (٢٧) کرتے ہیں، اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے، یا اللہ کا عذاب انہیں اس جہت سے آ لے جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔
اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا....: فاء عاطفہ ہے، لیکن ہمزۂ استفہام عربی میں کلام کے شروع میں آتا ہے، اس لیے عطف کی فاء ہو یا واؤ، ہمزۂ استفہام کے بعد لائی جاتی ہے، لہٰذا ترجمے میں حرف عطف کا معنی پہلے کیا جاتا ہے۔ ان تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے واضح دلائل اور کتاب دیکھنے سننے کے باوجود رسول اور اہل ایمان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو چار قسم کے عذاب سے خبردار کیا ہے، پہلا یہ کہ کیا وہ اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں دھنسا دے اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قارون کے متعلق فرمایا : ﴿ فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ ﴾ [ القصص : ۸۱ ] ’’تو ہم نے اسے اور اس کے مکان کو زمین میں دھنسا دیا۔‘‘ خود ہمارے دیکھنے میں آزاد کشمیر کے اندر آنے والے زلزلے میں کئی جگہوں پر زمین پھٹی اور کئی آدمی اور مکان اس کے اندر دھنس گئے، پھر دوسرے جھٹکوں کے ساتھ زمین کے وہ شگاف دوبارہ مل گئے اور دھنسنے والوں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ دوسرا یہ کہ انھیں عذاب ایسی جگہ سے آپکڑے جہاں سے وہ سوچتے بھی نہ ہوں کہ یہاں سے بھی عذاب آ سکتا ہے اور اچانک آ جانے کی وجہ سے نہ اس کا دفاع کر سکیں اور نہ اس سے بھاگ کر بچ سکیں۔ اس کے مشابہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ﴿ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا ﴾ [ الحشر : ۲ ] ’’تو اللہ ان کے پاس آیا جہاں سے انھوں نے گمان نہیں کیا تھا۔‘‘