لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ كَانُوا كَاذِبِينَ
تاکہ جس بات کی صداقت میں وہ اختلاف کرتے رہے تھے اسے ان کے لیے ظاہر کردے، اور تاکہ اہل کفر جان لیں کہ وہ (اپنی قسم میں) جھوٹے تھے۔
وَ لِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِيْنَ : یعنی وہ کافر اپنا جھوٹا ہونا جان لیں جو قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے اور یہ کہ حساب کتاب، جنت و دوزخ سب بے حقیقت چیزیں ہیں۔ مطلب یہ کہ جب دنیا میں سب باتوں کا فیصلہ نہیں ہوتا تو سب اختلافات کو دور کرنے کے لیے دوسرے جہاں، یعنی آخرت کا ہونا ’’لابد‘‘ (جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں) ہے، تاکہ حق و باطل میں امتیاز ہو جائے اور منکرین اپنا کیا پائیں۔ ’’ كَانُوْا كٰذِبِيْنَ ‘‘ لفظ ’’ كَانُوْا ‘‘ میں، یعنی زمانہ ٔماضی میں دوام اور استمرار پایا جاتا ہے، اس کے بجائے ’’اِنَّهُمْ كَذَبُوْا‘‘ یا ’’ إِنَّهُمْ كَاذِبُوْنَ ‘‘ میں یہ مفہوم ادا نہیں ہوتا۔