ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُخْزِيهِمْ وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تُشَاقُّونَ فِيهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَالسُّوءَ عَلَى الْكَافِرِينَ
پھر قیامت کے دن اللہ انہیں رسوا کرے گا اور کہے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شرکاء جن کے بارے میں تم (اہل توحید کے ساتھ) جھگڑتے تھے، اہل علم کہیں گے کہ بیشک آج رسوائی اور عذاب کافروں کے لیے ہے۔
ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يُخْزِيْهِمْ وَ يَقُوْلُ....: ’’ يُخْزِيْ ‘‘ ’’خِزْيٌ ‘‘ سے باب افعال کا مضارع ہے، بمعنی رسوائی۔ یہ جسمانی عذاب سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ آدمی جسمانی سزا کے آثار چہرے پر ظاہر نہ ہونے دے، مگر رسوائی کے آثار پورے جسم اور چہرے پر واضح ہوتے ہیں۔ ’’ ثُمَّ ‘‘ نسبتاً ترتیب کے لیے لایا گیا ہے کہ دنیا میں ہلاکت و بربادی کے بعد آخرت کی رسوائی اور عذاب کہیں سخت اور کبھی ختم نہ ہونے والا ہو گا اور اللہ تعالیٰ خود ان سے پوچھے گا کہ تم نے جو میرے شریک بنا رکھے تھے اور تم کہتے تھے کہ فلاں کو قبر میں سوال ہوا تو اس نے فلاں بزرگ کا دھوبی ہونے کا حوالہ دیا اور چھوڑ دیا گیا، فلاں بزرگ کے دم کے باوجود بچہ مر گیا تو اس بزرگ نے چوتھے آسمان پر جاتے ہوئے ملک الموت سے روحوں کا تھیلا چھین کر سب روحوں کو آزاد کر دیا اور وہ دوبارہ زندہ ہو گئے۔ فلاں صاحب کے لیے لوح محفوظ میں بھی بچہ قسمت میں نہ تھا تو فلاں بزرگوں نے انھیں بارہ بیٹے عطا کر دیے۔ اس قسم کے تمام مشرکوں سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا بتاؤ وہ جو تم نے میرے شریک بنا رکھے تھے اور جھوٹ پر بنیاد کے باوجود تم مسلمان موحدوں سے لڑتے جھگڑتے رہتے تھے، انھیں اب لاؤ، پیش کرو، وہ کہاں ہیں؟ اس کا جواب وہ کیا دیں گے، البتہ اہل علم (فرشتے، انبیاء اور صالحین) یک زبان ہو کر کہیں گے کہ آج کامل رسوائی اور برائی ایمان نہ لانے والوں پر وارد ہو گی۔ اہل ایمان گناہ گاروں سے بھی باز پرس ہو گی، مگر کامل رسوائی صرف کفار کا مقدر ہو گی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۱۸) ’’ الْخِزْيَ ‘‘ اور ’’ السُّوْٓءَ ‘‘ کے الف لام کی وجہ سے ’’کامل رسوائی‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔