سورة النحل - آیت 22

إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تم سب کا معبود ایک ہے (١٤) پس جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے دل انکار کرتے ہیں درآنحالیکہ وہ تکبر کرتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ....: گزشتہ تمام دلائل اور احسانات بیان کرنے کے بعد ان کا نتیجہ اور خلاصہ بیان فرمایا کہ تمھارا معبود جس کی عبادت حق ہے، وہ ایک ہی ہے۔ ’’ وَاحِدٌ ‘‘ کا مطلب ہے کہ وہ ایک ہے، کوئی اس کا ثانی یا شریک نہیں، نہ ذات میں نہ صفات میں۔ آگے وہ اسباب بیان کیے جو انسان کو توحید سے پھسلا کر شرک کی طرف لے جاتے ہیں، یہ اسباب درج ذیل ہیں : (1) ان میں سے پہلا سبب آخرت پر ایمان نہ ہونا ہے۔ آیت میں مشرکین ہی کو ’’فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ ‘‘ فرمایا ہے، اگر یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے زندہ کرکے باز پرس کرنی ہے اور وہاں جزا و سزا صرف اس کے ہاتھ میں ہو گی، کسی دوسرے کا دخل نہ ہو گا تو آدمی کسی اور کو کس طرح اس کے ساتھ شریک کر سکتا ہے۔ اس لیے آخرت کے منکر اللہ اکیلے کا ذکر سن ہی نہیں سکتے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ اِذَاهُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ﴾ [ الزمر : ۴۵ ] ’’اور جب اس اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑ جاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو وہ بہت خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘ (2) دوسرا سبب یہ کہ ان کے دل انکار کرنے والے ہیں، وہ نہ کسی دلیل کو مانتے ہیں نہ اللہ کی تمام نعمتیں جاننے کے باوجود کوئی نعمت تسلیم کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿يَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ يُنْكِرُوْنَهَا ﴾ [ النحل : ۸۳ ] ’’وہ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں، پھر اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ وہ مسخ ہو چکے ہیں اور ان پر مہر لگ چکی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ وَ عَلٰى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ﴾ [البقرۃ : ۷ ] ’’اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی نگاہوں پربھاری پردہ ہے۔‘‘ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ان کی مثال الٹے کوزے کی دی گئی ہے، جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہوتی، چنانچہ وہ دل نہ نیکی کو نیکی سمجھتے ہیں نہ برائی کو برائی، سوائے ان کی اپنی خواہش کے جس کی محبت انھیں پلا دی گئی ہے۔ [ مسلم، الإیمان، باب رفع الأمانۃ و الإیمان....: ۱۴۴ ] (3) تیسرا سبب ان کا استکبار یعنی اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنا ہے۔ ان کا تکبر انھیں کوئی خیر خواہی کی بات نہ سننے دیتا ہے نہ ماننے دیتا ہے اور یہی ان کی تمام بیماریوں کی جڑ ہے اور یہ ایسی خطرناک چیز ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : (( لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُوْنَ ثَوْبُهُ حَسَنًا، وَنَعْلُهُ حَسَنَةً. قَالَ إِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ )) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ۹۱ ]’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر کبر ہو گا۔‘‘ ایک آدمی نے کہا : ’’آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’بے شک اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے، کبر حق کو تسلیم نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔‘‘