وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور اسی نے سمندر (٨) کو تابع کردیا ہے تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ، اور اس سے وہ زیور نکالو جسے تم پہنتے ہو اور تم کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ وہ سمندر کا پانی چیرتی ہوئی آگے بڑھتی رہتی ہیں اور تاکہ تم اس کی پیدا کی ہوئی روزی تلاش کرو، اور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔
وَ هُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ....: اور وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے سمندر جیسی عظیم مخلوق کہ اگر بپھر جائے تو خشکی پر چڑھ کر ہر قسم کی زندگی درہم برہم کر ڈالے، کو پابند فرما دیا کہ اپنی حدود میں رہے اور انسان کو اپنی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے دے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سمندر سے حاصل ہونے والی چار نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ وہ نعمتیں جو سمندر میں بنی اسرائیل کو راستہ دینے یا موسیٰ علیہ السلام کے تابوت کو کنارے پر پہنچانے کی صورت میں ہوئیں، وہ ان کے علاوہ ہیں۔ یہ چار نعمتیں درج ذیل ہیں : 1۔ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا: ’’ طَرِيًّا ‘‘ کا مصدر ’’طَرَاوَةٌ‘‘ ہے، اس کا فعل ’’قَرُبَ‘‘ اور ’’شَرُفَ‘‘ کے وزن پر آتا ہے، یہ ’’يَابِسٌ‘‘ کی ضد ہے، یعنی تروتازہ۔ مراد مچھلیاں اور پانی کا ہر وہ جانور ہے جو پانی کے بغیر زندہ نہ رہ سکے۔ سمندر کا مردار بھی حلال ہے اور محرم کو بھی سمندری شکار کی اجازت ہے۔ بعض لوگوں نے تمام سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کو حلال قرار دیا ہے، جو پکڑتے وقت زندہ ہو، لیکن یہ بات درست نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۹۶) اس میں اشارہ ہے کہ سمندری جانور تازہ حالت ہی میں لذیذ اور مفید ہوتا ہے، باسی ہو تو ضرر رساں ہوتا ہے۔ علامہ قاسمی نے فرمایا : ’’ لَحْمًا طَرِيًّا ‘‘ سے مچھلی کی بناوٹ کا حسن، لچک، ملائمت اور تری مراد ہے، ورنہ اس کا گوشت خشک کرکے محفوظ بھی کیا جاتا ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں غزوہ سیف البحر میں سمندر کے پانی کی چھوڑی ہوئی بہت بڑی مچھلی صحابہ کرام ایک ماہ تک کھاتے رہے اور بچا کر مدینہ بھی لے گئے۔یہ اسے نمک وغیرہ لگا کرخشک کرنے کے عمل کے بغیر کیسے ممکن ہے، اسی طرح اب برف یافریزر میں مچھلی ایک عرصہ تک محفوظ رہتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کمال ہے کہ سخت نمکین کڑوے پانی میں لذیذ گوشت تیار فرمایا، بتاؤ اس میں کون سے گنج بخش یا دستگیر کا حصہ ہے اور کتنا حصہ ہے؟ 2۔ وَ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً : ’’ تُخْرِجُوْا ‘‘ کے بجائے ’’ تَسْتَخْرِجُوْا ‘‘ سے کثرت کے ساتھ نکالنے کی طرف اشارہ ہے۔ ’’حِلْيَةً ‘‘ جس سے آرائش و زینت حاصل ہو، تاکہ تم اس سے زیور، موتی، مرجان، سونا اور اس میں چھپے ہوئے بے شمار خزانے اور دھاتیں کثرت سے نکالو۔ اس میں اللہ کی یہ نعمت بھی آ گئی کہ سمندر کو ایسا بنایا کہ انسان اس میں غوطہ لگا سکے۔ مسلمانوں کے لیے یہ ترغیب بھی ہے کہ وہ غوطہ خوری میں مہارت حاصل کریں، خود بھی اور مشینوں کے ساتھ بھی اور سمندر کے خزانوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ کفار کو کھلا نہ چھوڑیں کہ وہ اس کے خزانوں اور تیل، گیس اور دوسری معدنیات اور نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں اور مسلمان ان کی محتاجی ہی پر قانع رہیں۔ 3۔ وَ تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ: ’’ مَوَاخِرَ ‘‘ ’’ مَاخِرَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، اپنے سینے سے پانی کو چیرنے والی۔ اس لیے تمام بحری جہازوں کا سامنے کا حصہ نوک دار رکھا جاتا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت ہے کہ پانی جس میں ہر چیز غرق ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ سوئی بھی اس میں ڈوب جاتی ہے، اسے اس طرح بنایا کہ جب وزن اور حجم کی خاص نسبت رکھنے والی کوئی چیز اس میں ڈالی جائے تو وہ اسے اٹھا لیتا ہے، حتیٰ کہ لاکھوں ٹن وزن اٹھانے والے بحری جہاز پانی کو چیرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر پانی اللہ کے حکم سے انھیں اٹھاتا بھی ہے، راستہ بھی دیتا ہے اور خوراک بھی مہیا کرتا ہے۔ 4۔ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ : دور دراز کے کم خرچ اور آسان سفر، دنیا کی سیر، علم کا حصول، حج و عمرہ، تجارت، جہاد، مال غنیمت، الغرض کوئی ایک فائدہ اور فضل ہو تو گنا جائے، یہ سب کچھ اکیلے اللہ نے بنایا، کسی داتا یا دیوتا کا اس میں کچھ دخل نہیں اور اس نے یہ اس لیے بنایا کہ تم ان نعمتوں کی قدر کرو اور اس کے احکام پر عمل کرکے زبانی اور عملی طور پر شکر ادا کرو۔