سورة النحل - آیت 9

وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ ۚ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور سیدھی راہ (٤) بتا دینا اللہ پر واجب ہے اور بعض راستے ٹیڑھے ہوتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ....: چند انسانی ضروریات کا ذکر فرما کر سب سے ضروری چیز یعنی صحیح راستہ بتانے کے اہتمام کا خاص طور پر ذکر فرمایا، کیونکہ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے ہم ہر نماز میں یہی دعا کرتے ہیں : ﴿ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ﴾ [ الفاتحۃ : ۵ ] ’’ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔‘‘ ’’ قَصْدُ ‘‘ کا معنی سیدھا ہونا۔ ’’ السَّبِيْلِ ‘‘ کا معنی راستہ، تو ’’ قَصْدُ السَّبِيْلِ ‘‘ سیدھا راستہ جس میں کوئی کجی نہ ہو۔ اسے ’’سبیل قصد ‘‘ بھی کہتے ہیں اور ’’سبیل قاصد‘‘ بھی۔ گویا ’’ قَصْدُ ‘‘ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے جو موصوف کی طرف مضاف ہے۔ یہ بات طے ہے کہ دو نقطوں کے درمیان سب سے مختصر خط مستقیم ہی ہوتا ہے، یعنی اپنے بندوں کی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرنا اللہ ہی کے ذمے ہے اور یہ ذمہ خود اس نے اپنے فضل سے اٹھایا ہے، کسی کا اس پر جبر نہیں۔ یا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سیدھا راستہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے والا ہے، یعنی انسان فطرت پر قائم رہے تو خود بخود توحید الٰہی کا قائل ہو جاتا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جسمانی ضروریات پوری کرنے کا سامان بہم پہنچایا ہے، اسی طرح اس کی ہدایت کا راستہ بھی متعین کر دیا ہے۔ 2۔ جب زندگی عطا کرنے والے نے خود راستہ متعین کر دیا تو مفکروں، فلسفیوں اور قانون سازوں کو دستور سازی یا قانون سازی کی تکلیف سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ ان کا علم ہر چیز کا احاطہ نہیں کرتا، اس لیے ان کے بنائے ہوئے دستور و قانون بدلتے رہتے ہیں اور ہمیشہ انسان کی بربادی ہی کا باعث بنتے ہیں۔ حکام کا کام دستور سازی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے دستور و قانون کو عملاً نافذ کرنا ہے۔ افسوس کہ کفار کی کئی سو سالہ محنت کے نتیجے میں مسلمانوں نے آخر اللہ تعالیٰ کا منصب خود سنبھال لیا اور خلافت ختم کرکے جمہوریت کے نام پر خود دستور ساز اور قانون ساز بن بیٹھے۔ اب نام ان کا مسلم ہے، مگر نظام ان کا اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور کفار کے حکم یا اپنی خواہش پر عمل ہے۔ وَ مِنْهَا جَآىِٕرٌ: ’’جَارَ عَنِ الطَّرِيْقِ‘‘ راستے سے ہٹ گیا۔ ’’جَآىِٕرٌ ‘‘ اسم فاعل ہے،وہ تمام راستے جواللہ کی طرف سے نہیں ہیں،یعنی نہ قرآن سے ثابت ہیں نہ حدیث سے، وہ سب صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں اورانھیں اختیارکرنے والے گمراہ ہیں۔ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ : مگر اس سے انسان کو پیدا کرنے کا اصل مقصد جو آزمائش ہے، وہ فوت ہو جاتا، اس لیے کہ جس حد تک راہ دکھانے کا تعلق تھا وہ تو پیغمبر بھیج کر اور کتابیں اتار کر پورا کر دیا، مگر اس راہ پر چلنا انسان کے اختیار پر چھوڑ دیا، تاکہ اس کے اعمال کے مطابق اسے جزا یا سزا دی جا سکے۔