وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
اور اس نے چوپایوں کو پیدا کیا ہے جن میں تمہارے لیے گرمی حاصل کرنے کا سامان اور دیگر منافع ہیں، اور ان میں سے بعض جانوروں کا تم گوشت کھاتے ہو۔
وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ....: ’’ الْاَنْعَامَ ‘‘ ’’نَعَمٌ‘‘ (ن اور ع کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے، اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکریاں۔ ’’ دِفْءٌ ‘‘ گرمی، یہ سردی سے ٹھٹھرنے کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے، ’’مَا يُدْفَأُ بِهٖ‘‘ جس کے ساتھ گرمی حاصل کی جائے، جیسا کہ ’’مِلْأٌ ‘‘ جس کے ساتھ کسی چیز کو بھرا جائے۔ چوپاؤں کا ایک خاص فائدہ ان کی اون اور بالوں سے گرمی مہیا کرنے والا لباس اس کی اہمیت کے پیش نظر پہلے ذکر فرما کر عام فوائد کا ذکر بعد میں فرمایا۔ ’’ وَ مَنَافِعُ ‘‘ اور بہت سے فائدے ہیں، مثلاً سواری کرتے ہو، ہل چلاتے ہو، پانی کھینچتے ہو، ان کا گوبر جلاتے ہو، کھیتوں میں بطور کھاد ڈالتے ہو، انھیں بیچ کر ضرورت کا ہر سامان خریدتے ہو۔ ان منافع میں ”دِفْءٌ ٌ“ بھی شامل ہے اور یہ بھی کہ ان کی نسل بڑھنے سے تمھاری دولت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور آخر میں ان منافع میں سے پھر خاص طور پر ایک نفع ذکر فرمایا کہ انھی سے تم کھاتے ہو، یعنی دودھ، دہی، ان سے بننے والی بے شمار چیزیں اور گوشت، الغرض، ان میں تمھارے کھانے کا سامان بھی ہے۔ یہ آیت اسی سورت کی آیت (۶۶) اور (۸۰) کے مشابہ ہے۔