فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ
پس آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے سے کھول کر (٤٠) بیان کردیجیے اور مشرکین کی پرواہ نہ کیجیے
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ....: ’’ صَدَعَ يَصْدَعُ، الْأَمْرَ ‘‘ کسی معاملے کو خوب کھول کر بیان کرنا اور ’’صَدَعَ بِالْحَقِّ‘‘ کھلم کھلا بلند آواز سے حق کا اظہار کرنا۔ شروع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خفیہ اسلام کی دعوت دیتے تھے، اس کے بعد ان آیات میں چھپ کر دعوت دینے کے بجائے صاف اعلانیہ طور پر اللہ تعالیٰ کے احکام سنانے کا اور مشرکین کی پروا نہ کرتے ہوئے ان سے اعراض کرنے کا حکم ہوا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے خود نمٹنے کا ذمہ اٹھایا جو آپ سے استہزا کرتے اور ٹھٹھا اڑاتے تھے۔ یہ حکم مکہ میں نازل ہوا، مدینہ گئے تو وہاں کفار اور اہل کتاب سے جنگ شروع ہوئی اور خطرے کے پیش نظر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کا پہرا دیتے تھے ،جب سورۂ مائدہ کی آیت (۶۷) ﴿ يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ﴾ (اے رسول ! پہنچا دے جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگر تو نے نہ کیا تو تو نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا) اتری تو آپ نے خیمہ سے سر نکال کر پہرے داروں سے فرمایا: (( يَا أَيُّهَا النَّاسُ! انْصَرِفُوْا، فَقَدْ عَصَمَنِيَ اللّٰهُ )) [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ المائدۃ : ۳۰۴۶۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۵ ؍۶۴۴، ح : ۲۴۸۹ ] ’’لوگو! چلے جاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے محفوظ کر دیا ہے۔‘‘