وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ
اور اصحاب حجر (٣٢) نے بھی ہمارے رسولوں کو جھٹلایا تھا۔
1۔ وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِيْنَ : ’’ الْحِجْرِ ‘‘ اصل میں اس جگہ کو کہتے ہیں جسے پتھروں سے گھیرا گیا ہو، جیسا کہ حطیم کو بھی حجر کہہ لیتے ہیں۔ ’’حَجَرَ يَحْجُرُ‘‘ کا معنی روکنا بھی ہے، تو ’’ الْحِجْرِ ‘‘ وہ جگہ جہاں عام لوگوں کا آنا جانا ممنوع ہو۔ یہ اس سورت میں چوتھا قصہ ہے۔ ’’ الْحِجْرِ ‘‘ شام اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک مقام ہے، جو صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کے لوگوں کا مرکز تھا، یہ جگہ خیبر سے تبوک جانے والی سڑک پر واقع ہے اور اب ’’مدائن صالح‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ علاقہ ’’العُلاء‘‘ سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ حجاز سے شام کو جو قافلے جاتے ہیں وہ لازماً یہاں سے گزر کر جاتے ہیں اور یہ اس ریلوے لائن کا ایک سٹیشن بھی ہے جو ترکوں کے زمانہ میں مدینہ سے دمشق کو جاتی تھی۔ اس قوم کے مفصل حالات سورۂ ہود (۶۵ تا ۶۸)، سورۂ اعراف، سورۂ قمر اور سورۂ شعراء میں ملاحظہ فرمائیں۔ 2۔ الْمُرْسَلِيْنَ : ایک رسول کو جھٹلانا چونکہ سب کو جھٹلانا ہے، اس لیے ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ انھوں نے رسولوں کو جھٹلا دیا۔ (روح المعانی)