وَإِن كَانَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ لَظَالِمِينَ
اور اصحاب ایکہ (٣١) (یعنی قوم شعیب کے لوگ) بھی حد سے تجاوز کر گئے تھے۔
1۔ وَ اِنْ كَانَ اَصْحٰبُ الْاَيْكَةِ....: یہ ’’ اِنْ ‘‘ اصل میں ’’إِنَّ ‘‘ تھا، اس کا اسم ضمیر شان ’’هٗ‘‘ محذوف ہے، اس کی دلیل اور سبب وہ لام ہے جو ’’ظَالِمِيْنَ‘‘ پر آیا ہے، جو ’’ كَانَ ‘‘ کی خبر ہے۔ ’’اَلْأَيْكُ‘‘ اسم جنس ہے، درختوں کے جھنڈ، زیادہ ہوں یا ایک، جیسے ’’تَمْرٌ‘‘ اسم جنس ہے۔ تاء وحدۃ کے اظہار کے لیے ہے، اس لیے ’’الْاَيْكَةِ ‘‘ کا معنی ہے ایک جھنڈ، جیسے ’’تَمَرْةٌ‘‘ ایک کھجور۔ 2۔ بہت سے علماء کا کہنا ہے کہ اصحاب مدین اور اصحاب الایکہ ایک ہی قبیلہ تھا اور کئی مفسرین انھیں الگ الگ قوم شمار فرماتے ہیں۔ ان کا ظلم یہ تھا کہ وہ شرک میں گرفتار تھے، ناپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے، راہ چلتے مسافروں کو لوٹ لیتے تھے۔ ان دونوں کی طرف شعیب علیہ السلام کو بھیجا گیا، تا کہ وہ ظلم کی ان تمام صورتوں سے باز آ جائیں۔ مدین والوں کی تفصیل سورۂ ہود (۸۴ تا ۹۵) میں ہے اور اصحاب الایکہ کی تفصیل سورۂ شعراء ( ۱۷۶ تا ۱۹۱) میں ہے۔ بعض کے مطابق اصحاب مدین اسی قوم کے شہری لوگ تھے اور اصحاب الایکہ انھی کے باہر جنگل میں رہنے والے لوگ تھے۔