سورة الحجر - آیت 65

فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ وَامْضُوا حَيْثُ تُؤْمَرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اس لیے آپ اپنے لوگوں کو لے کر کچھ رات رہتے ہی نکل جایئے (٢٧) اور آپ ان سب کے پیچھے چلیے، اور آپ لوگوں میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اور جہاں جانے کا آپ لوگوں کو حکم دیا جائے چلے جایئے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اتَّبِعْ اَدْبَارَهُمْ: لوط علیہ السلام کو ان کے پیچھے چلنے کا حکم اس لیے دیا کہ وہ ان کی اچھی طرح حفاظت کر سکیں، کوئی پیچھے نہ رہ جائے، سب مسلسل چلتے رہیں اور ٹھہر کر آنے والوں کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بھی یہی تھا، چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں پیچھے رہتے، کمزوروں کو آگے چلاتے اور سواری پر اپنے پیچھے بٹھاتے اور ان کے لیے دعا فرماتے۔ [ أبوداؤد، الجہاد، باب لزوم الساقۃ : ۲۶۳۹ ] وَ لَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ : کیونکہ مڑ کر دیکھنے میں وہ تیزی باقی نہیں رہے گی جو اللہ کے عذاب کی جگہ سے بھاگنے میں ہونی چاہیے اور وطن چھوڑتے وقت حسرت سے اسے بار بار دیکھنے کے بجائے بس آگے بڑھتے جاؤ، تاکہ نہ دل کسی اور طرف متوجہ ہو اور نہ اللہ کے ذکر و شکر اور تمھاری رفتار میں کوئی کمی واقع ہو، نہ قوم کی بدترین بربادی دیکھتے ہوئے دل میں کوئی رقت پیدا ہو۔ وَ امْضُوْا حَيْثُ تُؤْمَرُوْنَ: وہ جگہ اللہ تعالیٰ نے ذکر نہیں فرمائی، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ تعجب ہوتا ہے کہ بعض مفسرین اس کے بغیر ہی ’’قِيْلَ‘‘ (کہا گیا ہے) کہہ کر کبھی شام، کبھی اردن اور کبھی مصر کا نام لیتے ہیں، یہ اندھیرے میں تیر پھینکنے والی بات ہے۔