يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے ایمان والو ! مقتولین کے بارے میں تمہارے اوپر قصاص (257) کو فرض کردیا گیا، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، اور عورت کے بدلے عورت، اگر کسی (قاتل) کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کردیا جائے، تو مقتول کے ورثہ دیت کے مطالبہ میں نرمی سے کام لیں، اور قاتل اس کی ادائیگی میں خوش اسلوبی سے کام لے، یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک قسم کی آسانی اور رحمت ہے، اب جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے گا، اس کے لیے بڑا دردناک عذاب ہوگا
1۔ الْقَتْلٰى: یہ ”قَتِيْلٌ“ کی جمع ہے، جو بمعنی مقتول ہے۔ اس آیت سے بظاہر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مرد، مرد ہی کو قتل کرنے کی صورت میں قتل کیا جائے گا، عورت کو قتل کر دے تو قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح عورت، عورت ہی کو قتل کرنے کی صورت میں قتل کی جائے گی، مرد کو قتل کرنے کی صورت میں نہیں ، مگر یہ معنی مراد نہیں ، بلکہ یہاں اہل جاہلیت کے ایک ظلم کا خاتمہ مقصود ہے کہ اگر ان کے کمزور قبیلے کی کوئی عورت کسی طاقت ور قبیلے کے کسی مرد کو قتل کر دیتی تو وہ قتل کرنے والی عورت کے بجائے اس قبیلے کے کسی بے گناہ مرد یا متعدد مردوں کو قتل کر دیتے۔ اسی طرح کسی کمزور قبیلے کا کوئی غلام کسی زور آور قبیلے کے کسی آزاد آدمی کو قتل کر دیتا تو وہ اس قاتل غلام کی جگہ اس قبیلے کے کسی بے گناہ آزاد ہی کو قتل کرنے پر اصرار کرتے، تواللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قتل کرنے والے کے بدلے میں اسی قاتل ہی کو قتل کیا جائے، کسی دوسرے کو نہیں ، قاتل خواہ آزاد ہے یا غلام، مرد ہے یا عورت۔ (خلاصہ از طبری) 2۔اگر کوئی مسلمان کسی کافر کو قتل کر دے تو قصاص میں مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا، بعض لوگوں نے کہا کہ کافر کو قتل کرنے کی صورت میں مسلمان کو قتل کر دیا جائے گا، مگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صریح فرمان کے خلاف ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (( وَ اَنْ لاَّ یُقْتَلَ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ)) ’’اور یہ کہ کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔‘‘ [ بخاری، الدیات، باب لا یقتل المسلم بکافر : ۶۹۱۵] مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو چوپاؤں کی مانند بلکہ ان سے بھی گمراہ تر قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف(۱۷۹) 3۔ ”مِنْ اَخِيْهِ“ یہاں مقتول کے وارث کو قاتل کا بھائی قرار دینے میں ایک طرح کی سفارش ہے کہ بے شک قاتل نے تمھارے آدمی کو قتل کیا ہے مگر مسلمان ہونے کے ناتے تم اس کے بھائی ہو، تمھیں اسے کچھ نہ کچھ معافی دینی چاہیے۔ معافی کی دو صورتیں ہیں ، ایک تویہ کہ صدقہ کرتے ہوئے دیت لیے بغیر معاف کر دیں ۔ دوسری یہ کہ دیت لے لیں ، پھر خواہ پوری لے لیں یا اس میں سے کچھ معاف کر دیں ۔ اگر وہ معاف کرتے ہوئے قصاص کی جگہ دیت قبول کر لیں تو ان پر لازم ہے کہ دیت کا تقاضا اچھے طریقے سے کریں اور قاتل کے قبیلے والوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اچھے طریقے سے دیت ادا کر دیں ۔ استطاعت ہوتے ہوئے دیت ادا نہ کرنا ظلم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (( مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ)) ’’غنی کا (کسی کا حق دینے میں ) دیر کرنا ظلم ہے۔‘‘ [ بخاری، الحوالات، باب الحوالۃ وہل یرجع فی الحوالۃ : ۲۲۸۷] 4۔ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ : ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں صرف قصاص تھا دیت نہیں تھی، اب اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرما کر دیت لینے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ [ بخاری، التفسیر، باب ﴿یأیہا الذین آمنوا .... ﴾ : ۴۴۹۸] 5۔ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ : دیت لے کر بھی کوئی آدمی اگر قاتل کو قتل کرے تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔