لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُورُونَ
پھر بھی یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھوں کو مدہوش کردیا گیا ہے، بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔
لَقَالُوْا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا....: ’’ سَكَرَ يَسْكُرُ سَكْرًا ‘‘ باندھنا، روکنا اور بند کرنا، ’’سَكَرْتُ الْبَابَ‘‘ ’’میں نے دروازہ بند کیا۔‘‘ ’’ سُكِّرَتْ ‘‘ باب تفعیل مبالغہ کے لیے ہے، یعنی یہی کہیں گے کہ جادو کے زور سے ہماری آنکھیں بالکل بند کر دی گئی ہیں، اس لیے جادو زدہ ہونے کی و جہ سے ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں محض خیال ہے اور فی الواقع انھوں نے یہ کام کر بھی دکھایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ (1) وَ اِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَ يَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴾ [القمر : ۱، ۲ ] ’’قیامت بالکل قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا اور اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (یہ) ایک جادو ہے جو گزر جانے والا ہے (یا ہمیشہ سے چلا آنے والا ہے)۔‘‘