رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ
اے میرے رب ! مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا دے، اے ہمارے رب ! اور میری دعا (٢٩) کو قبول فرما لے۔
1۔ رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ: یہ ابراہیم علیہ السلام کی عاجزانہ دعاؤں کا آخری حصہ ہے، جس میں انھوں نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اس چیز پر پابند رہنے کی دعا کی ہے جو توحید و رسالت کے یقین و اقرار کے بعد اسلام میں سب چیزوں سے زیادہ ضروری ہے، یعنی نماز جو خاشعین(عاجزی کرنے والوں) کے سوا سب لوگوں کے لیے نہایت دشوار ہے (دیکھیے بقرہ : ۴۵، ۴۶) اور جس کے متعلق موسیٰ علیہ السلام (جَزَاهُ اللّٰهُ عَنَّا وَ عَنْ جَمِيْعِ أُمَّتِنَا أَحْسَنَ الْجَزَاءِ ) نے کہا تھا کہ میں نے بنی اسرائیل کو بہت زیادہ بھگتا ہے، آپ کی امت پانچ نمازوں کی طاقت بھی نہیں رکھے گی۔ سو جو ایمان و کفر کے درمیان فرق کرنے والی سب سے نمایاں چیز ہے، ابراہیم علیہ السلام کو اس کی اتنی فکر تھی کہ اپنے اور اپنی اولاد کے لیے اس کی پابندی کی خاص طور پر دعا کی۔ 2۔ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ: ’’اور میری اولاد میں سے بھی‘‘ بظاہر یہ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، یعنی مجھے اور میری اولاد میں سے بھی کچھ نماز کے پابند بنا، مگر اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے ساری اولاد کے لیے یہ دعا کیوں نہ کی؟ اس کا جواب اکثر مفسرین نے یہ دیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو انسانی تاریخ سے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ ‘‘ سے اندازہ تھا کہ ساری اولاد نمازی نہیں ہو سکے گی، اس لیے انھوں نے یہ دعا کی کہ ایسا نہ ہو کہ اولاد میں سے کوئی بھی نمازی نہ رہے، یہ اسی طرح ہے جیسا کہ انھوں نے دعا کی تھی : ﴿ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَا اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۲۸ ] ’’اے ہمارے رب! اور ہمیں اپنے لیے فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت اپنے لیے فرماں بردار بنا۔‘‘ ابن عاشور صاحب ’’ التحریر والتنویر‘‘ نے لکھا ہے : ’’یہ ’’ مِنْ ‘‘ ابتدائیہ ہے، تبعیض کے لیے نہیں اور ’’ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ ‘‘ محذوف کی صفت ہے جس کا عطف یائے متکلم پر ہے۔ مقدر عبارت اس طرح ہو گی : ’’ رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَاجْعَلْ مُقِيْمِيْنَ لِلصَّلَاةِ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ‘‘ یعنی مجھے نماز کا پابند بنا اور نماز کا پابند ان کو بھی بنا جو میری اولاد میں سے ہوں۔ ’’ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِنَا اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ‘‘ کی ترکیب بھی اسی طرح ہو سکتی ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ دعا مانگتے وقت یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام بت پرستی سے بچنے کی دعا تو اپنے اور اپنی ساری اولاد کے لیے کریں، فرمایا : ﴿ وَ اجْنُبْنِيْ وَ بَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ﴾ [ إبراھیم : ۳۵ ] (اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بت پوجنے سے بچائے رکھ) مگر نماز کا پابند بنانے کی دعا سب کے لیے کرنے کے بجائے بعض کے لیے کریں۔ جب ہم خود دعا کرتے وقت یہ پسند نہیں کرتے کہ یہ دعا کریں کہ یا اللہ! ہماری کچھ اولاد کو نمازی بنا تو ابراہیم علیہ السلام یہ کیسے پسند کر سکتے ہیں؟‘‘ ابن عاشور کی بات دل کو لگتی ہے۔ (واللہ اعلم) 3۔ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ: دعا کے بعد پھر قبولیت کی درخواست اپنے عجز کا اظہار اور قبولیت پر اصرار ہے۔ ’’دُعَآءِ ‘‘ پر کسرہ اس لیے ہے کہ یہ اصل میں [’’ دُعَائِيْ‘‘] تھا، آیات کے فواصل کی موافقت کے لیے یاء حذف کرکے کسرہ اس پر دلالت کے لیے باقی رکھا گیا ہے۔