وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ
اور جب ابراہیم نے کہا، میرے رب ! اس شہر کو پرامن (٢٤) بنا دے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی عبادت سے بچا لے۔
1۔ وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ.....: عام احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب خاص اس احسان کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں پر کیا تھا اور وہ تھا ان کے باپ ابراہیم علیہ السلام کا ان کے جد اعلیٰ اسماعیل علیہ السلام کو یہاں لا کر آباد کرنا۔ اس سلسلے میں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام نے کن تمناؤں کے ساتھ تمھیں یہاں لا کر بسایا تھا اور کس طرح اس شہر کے پرامن بنانے کی اور اپنے اور اپنے بیٹوں کے لیے بت پرستی سے محفوظ رہنے کی دعا کی تھی، مگر آج تم ان احسانات کو بھول گئے اور بت پرستی کو اپنا دین قرار دے دیا۔ 2۔ اٰمِنًا: یہ ’’ذَا اَمْنٍ‘‘ (امن والا) کے معنی میں ہے، جیسے ’’لَابِنٌ‘‘ (دودھ والا) اور ’’تَامِرٌ‘‘ (کھجور والا) ہے۔ سورۂ بقرہ(۱۲۶) میں ’’هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ‘‘ اور یہاں ’’ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا ‘‘ میں فرق یہ ہے کہ سورۂ بقرہ میں ’’هٰذَا‘‘ پہلا مفعول اور ’’ بَلَدًا اٰمِنًا ‘‘ دوسرا مفعول ہے، جب کہ یہاں ’’هٰذَا الْبَلَدَ ‘‘ پہلا مفعول اور ’’اٰمِنًا‘‘ دوسرا مفعول ہے۔ دونوں جگہ ترجمے کا فرق ملاحظہ فرمائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ سورۂ بقرہ (۱۲۶) میں موجود پہلی دعا ’’ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ‘‘ اس وقت کی ہے جب شہر نہیں بنا تھا، تو دعا کی کہ اس جگہ کو امن والا شہر بنا دے اور دوسری دعا اس وقت کی جب شہر بن چکا تھا، اسماعیل علیہ السلام بڑے ہو چکے تھے کہ پروردگارا! اس شہر کو امن والا بنا دے۔ امن ایک بہت بڑی نعمت ہے اور خوف بہت بڑی آزمائش ہے۔ رازی فرماتے ہیں، ایک عالم سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو بیماری اور خوف میں سے ایک کے انتخاب پر مجبور کیا جائے تو آپ کیا اختیار کریں گے؟ انھوں نے فرمایا، میں بیماری کو اختیار کروں گا کہ اس میں آدمی کھا پی اور سو تو سکتا ہے، خوف میں اس سے بھی محروم ہو جاتا ہے، آپ ایک بکری کا تصور کریں جس کی ٹانگ ٹوٹ جائے، وہ کھاتی پیتی رہے گی، سو بھی جائے گی، مگر ایک تندرست بکری جس کے سامنے بھیڑیا ہو، وہ نہ کھا سکے گی، نہ پی سکے گی اور نہ آرام کر سکے گی، حتیٰ کہ نوبت موت تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورۂ قریش میں بھوک سے کھلانے اور خوف سے امن دینے کی نعمت کا ذکر فرما کر قریش کو خاص اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ 3۔ وَ اجْنُبْنِيْ وَ بَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ: ’’جَنَبَ يَجْنُبُ‘‘ یہ ’’نصر‘‘ سے اور افعال اور تفعیل سے ایک ہی معنی میں آتا ہے۔ ’’صنم‘‘ اس پتھر یا لکڑی یا کسی دھات کے بنائے ہوئے بت، تصویر یا مجسمے کو کہتے ہیں جو کسی انسان یا فرشتے یا دیوتا کی حقیقی یا خیالی صورت پر پوجا کے لیے بنایا گیا ہو، جب کہ ’’وثن‘‘ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو غیر اللہ کی عبادت کے لیے مختص ہو، خواہ قبر ہو یا درخت یا دریا یا بت یا کوئی جانور یا انسان وغیرہ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم اور اپنے والد کی صنم پرستی اور اس پر اصرار اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اس لیے وہ اپنے یا اپنی اولاد کے اس میں مبتلا ہونے سے سخت خوف زدہ تھے، سو انھوں نے یہ دعا کی۔ ’’بَنِيَّ ‘‘ میں ساری اولاد شامل ہے، جیسے بنی آدم یا بنی اسرائیل۔ بیٹوں کی حد تک تو دعا قبول ہوئی، مگر ساری اولاد کے حق میں بعینہٖ قبول نہیں ہوئی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِيْنٌ ﴾ [ الصافات : ۱۱۳ ] ’’اور ان دونوں (ابراہیم اور اسحاق) کی اولاد میں سے کوئی نیکی کرنے والا ہے اور کوئی اپنی جان پر صریح ظلم کرنے والا ہے۔‘‘ یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کا مالک ہے، وہ اپنی حکمت کے مطابق دعا کرنے والے کی دعا کا جتنا حصہ چاہتا ہے اس کی خواہش کے مطابق پورا کر دیتا ہے اور جو حصہ چاہتا ہے کسی اور صورت میں عطا کر دیتا ہے۔ دعا کسی صورت بھی ضائع نہیں جاتی، البتہ مرضی اسی کی چلتی ہے، کسی دوسرے حتیٰ کہ انبیاء کی بھی نہیں۔ ہمیں بھی ہر وقت اس بات کی فکر رہنی چاہیے کہ ہم یا ہماری اولاد کسی طرح شرک میں مبتلا نہ ہو جائیں، ہمیں اپنی اولاد کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے اور اسے توحید کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔