سورة ابراھیم - آیت 34

وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور تم نے اس سے جو کچھ مانگا تمہیں عطا کیا، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو گے تو نہیں گن سکو گے، بیشک انسان بڑا ظالم، بڑا ناشکرا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ : یعنی یہ سب کچھ اور بہت کچھ تمھارے مانگے بغیر دیا۔ علاوہ ازیں جو کچھ تم نے مانگا اس میں سے بھی جتنا چاہا اس نے تمھیں دیا۔ ’’ مِنْ ‘‘ تبعیضیہ ہے۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ زبان حال یا قال سے تم نے جو مانگا، یعنی اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے تمھاری حالت جو تقاضا کرتی تھی اور جو بھی تمھاری ضرورت ہو سکتی تھی اس نے اس میں سے جتنا چاہا تمھیں دیا۔ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا : یعنی مختصر طور پر بھی نہیں گن سکو گے، کجا یہ کہ تم لا محدود نعمتوں کو شمار کر سکو، تو سوچو تم اس کا شکر کس طرح ادا کر سکتے ہو۔ (شوکانی) ’’ كَفَّارٌ ‘‘ بہت ناشکرا۔ ’’اَحْصٰي يُحْصِيْ اِحْصَاءً‘‘ (افعال) شمار کرنا، کیونکہ ’’اَلْحَصٰي‘‘ کا معنی کنکری ہے اور عرب کنکریوں کے ذریعے سے شمار کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ کنکریوں سے محدود شمار ہی ہو سکتا ہے۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ: انسان پر اللہ تعالیٰ کے کتنے احسانات ہیں اور ہر آن ہوتے رہتے ہیں، مگر وہ ہے کہ ذرا تکلیف پہنچتی ہے تو ناشکری پر اتر آتا ہے۔ ’’ لَظَلُوْمٌ ‘‘ سے یہی مراد ہے، یا ’’ الْاِنْسَانَ ‘‘ میں الف لام عہد کا ہے اور مراد کافر انسان ہے کہ وہ اللہ کا حق دوسروں کو دے کر، یعنی غیر اللہ کی عبادت کرکے بہت بڑا ظلم کر رہا ہے۔ فرمایا : ﴿ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ﴾ [لقمان : ۱۳ ]’’بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ کیونکہ ظلم کا معنی ہے ’’ وَضْعُ الشَّيْءِ فِيْ غَيْرِ مَحَلِّهِ‘‘ کہ کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ رکھ دینا۔ تو کافر انسان اللہ کی نعمتیں استعمال کرکے نہ اس کی عبادت کرتا ہے نہ اطاعت بلکہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کو مخلوق کے احسانات شمار کرتا ہے، کبھی کسی کو جھولی بھرنے والا کہتا ہے، کبھی کسی کو داتا کہتا ہے، کبھی کسی کو دستگیر، کبھی کسی کو مشکل کشا۔ ’’الْاِنْسَانَ ‘‘ سے مراد یہاں کافر انسان ہونے کی دلیل اس سلسلۂ آیات کی ابتدا بھی ہے، فرمایا : ﴿ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ (28) جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَ بِئْسَ الْقَرَارُ ﴾ [ إبراہیم : ۲۸، ۲۹ ] ’’کیا تو نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جنھوں نے اللہ کی نعمت کو ناشکری سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا، جہنم میں، وہ اس میں داخل ہوں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔‘‘ یہ اس کی زبردست ناشکری ہے۔ اے کافر انسان! افسوس تیری اس کافری اور ناشکری پر۔ کاش! تو اپنے اصل داتا اور دستگیر کا احسان مانتا، اسی کا شکر ادا کرتا: بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے