وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ ۗ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ
اور انہوں نے غیر اللہ کو اس کا شریک ٹھہرایا تاکہ لوگوں کو اس کی راہ سے بھٹکائیں، آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ (کچھ دنوں کے لیے) مزے اڑا لو، اس کے بعد یقینا تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا۔
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا.....: ’’ اَنْدَادًا ‘‘ ’’نِدٌّ‘‘ کی جمع ہے۔ راغب نے لکھا ہے : ’’نَدِيْدُ الشَّيْئِ مُشَارِكُهُ فِيْ جَوْهَرِهِ ‘‘ کہ جو کسی چیز کے اصل میں شریک ہو، جبکہ مثل کا لفظ ہر مشارک پر بولا جاتا ہے، چنانچہ ہر ’’ند‘‘ مثل ہے مگر ہر مثل ’’ند‘‘ نہیں۔ (اس لیے اس کا ترجمہ شریک کیا جاتا ہے) یعنی وہ ان کی پوجا کرنے لگے اور دکھ درد میں انھیں پکارنے لگے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کا جرم شرک کا ارتکاب اور لوگوں میں اس کی اشاعت کے ذریعے سے انھیں اسلام سے روکنا اور گمراہ کرنا قرار دیا ہے۔ ’’تَمَتُّعٌ‘‘ کچھ وقت تک فائدہ اٹھانے کو کہتے ہیں۔ قرآن میں جہاں بھی یہ لفظ ’’ تَمَتَّعْ ‘‘ یا ’’تَمَتَّعُوْا ‘‘ (یعنی فائدہ اٹھاؤ) آیا ہے، اس کا مطلب اس کی اجازت دینا نہیں بلکہ اس پر ڈانٹنا اور ڈرانا ہے، یعنی اچھا اگر تم باز نہیں آتے تو چند روز کے مزے اڑا لو، مگر کب تک؟ آخر کار تمھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہے۔