أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ
کیا آپ (١٥) دیکھ نہیں رہے ہیں کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بامقصد پیدا کیا ہے، اگر وہ چاہے گا تو تمہیں ختم کردے گا اور ایک نئی مخلوق لے آئے گا۔
1۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ ....: ’’اَلَمْ تَرَ ‘‘ کا معنی ’’اَلَمْ تَعْلَمْ‘‘ ہے، یعنی کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے، یعنی اس صحیح اندازے کے مطابق جس کے مطابق اسے ہونا چاہیے تھا اور جو اپنے خالق کی کمال قدرت پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کسی چیز میں کوئی نہ نقص نکال سکتا ہے نہ کوئی ایسی صورت پیش کر سکتا ہے جو اس سے بہتر ہو۔ ہاں وہ خود اس سے بھی بہتر بنانے پر پوری طرح قادر ہے۔ 2۔ وَ مَا ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ بِعَزِيْزٍ : اس کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں ہے، وہ چاہے تو ایسے کروڑوں عالم دم بھر میں مٹا کر نئے پیدا کر دے۔ ’’وَ يَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ ‘‘ کا ایک معنی بعض اہل علم نے یہ بھی کیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو تم سب کو دفعتاً ختم کرکے تمھیں دوبارہ نئے سرے سے پیدا کر دے۔ آگے آنے والی آیات جو حشر اور قیامت کے واقعات پر مشتمل ہیں اس معنی کی تائید کرتی ہیں۔