سورة ابراھیم - آیت 18

مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَّا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جن لوگوں نے اپنے رب کا انکار کردیا ان کے کاموں کی مثال اس راکھ (١٤) کی ہے جسے ایک تیز آندھی کے دن ہوا اڑا کرلے جائے، اپنی کمائی کا کچھ بھی حصہ نہ بچا سکیں گے، یہی سب سے بڑی گمراہی ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ.....: کفار دنیا میں جو بھی اچھے کام کرتے ہیں، مثلاً کمزوروں کی مدد اور صدقہ وغیرہ، وہ آخرت میں ان کے کسی کام نہیں آئیں گے، کیونکہ ان کا بدلا انھیں دنیا ہی میں دیا جا چکا ہو گا۔ (دیکھیے الاحقاف : ۲۰) ’’عَاصِفٍ‘‘ ’’ عَصَفَ يَعْصِفُ‘‘ سے ہے، بمعنی توڑنا۔ ’’كَعَصْفٍ مَّأْكُوْلٍ‘‘ کا معنی ہے ریزہ شدہ بھس، یعنی تیز و تند ہوا جو ہر چیز کو توڑتی جائے۔ اس آیت میں قیامت کے دن کفار کے اعمال کے بے کار ہونے کی مثال دی ہے کہ ایک تند و تیز ہوا والے دن میں کسی راکھ پر بہت سخت ہوا چلے تو اس ہوا میں راکھ کا ایک ذرہ بھی ہاتھ میں آنا مشکل ہے، اسی طرح کفار کے اعمال صالحہ اس دن بے کار ہوں گے، کیونکہ ان کا کوئی عمل اس دن کے لیے تھا ہی نہیں، نہ اس دن پر ان کا ایمان تھا۔ مزید دیکھیے سورۂ فرقان(۲۳)، کہف (۱۰۳ تا ۱۰۶) اور آل عمران (۱۱۷)۔