وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
اور جب تمہارے رب نے یہ خبر دی کہ اگر تم شکر (٧) ادا کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یاد رکھو کہ بیشک میرا عذاب سخت ہوتا ہے۔
1۔ وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ: ’’آذَنَ يُؤْذِنُ‘‘ کا معنی اطلاع دینا، اعلان کرنا ہے۔ باب تفعل میں جانے سے معنی میں اضافہ ہو گیا، اس لیے ترجمہ کیا ہے ’’صاف اعلان کر دیا۔‘‘ 2۔ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ: کیونکہ کسی کے بھی احسان کی قدر دانی اور اس کا شکریہ ادا کرنے سے اس کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کا توکہنا ہی کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَلَا شَخْصَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنَ اللّٰهِ، مِنْ أَجْلِ ذٰلِكَ وَعَدَ اللّٰهُ الْجَنَّةَ)) [ مسلم، اللعان : ۱۴۹۹ ]’’کوئی شخص ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ سے زیادہ اپنی تعریف پسند ہو، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کو زبانی شکر اتنا پسند ہے تو عملاً شکر اور اطاعت پر اس کی نوازش کس قدر ہو گی۔ 3۔ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ : اس کا جواب تو یہ تھا ’’لَأُعَذِّبَنَّكُمْ‘‘ کہ اگر تم کفر کرو گے تو میں تمھیں ضرور عذاب دوں گا، مگر اسے حذف کرکے ایسا جملہ استعمال فرمایا جو اس جملے کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کی نہایت شدت کو بھی، یعنی فرمایا : ﴿وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ ﴾ اور یہ بھی قرآن کا اعجاز ہے۔