وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اور ہم نے موسیٰ کو اپنے معجزات دے کر بھیجا اور کہا کہ آپ اپنی قوم کو ظلمتوں سے نکال کر روشنی (٥) میں پہنچائیے اور قوموں پر اللہ کی جانب سے نازل شدہ عذاب کے واقعات سنا کر انہیں نصیحت کیجیے، بیشک ان واقعات میں صبر و شکر کرنے والے ہر شخص کے لیے نشانیاں ہیں۔
1۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا.....: اللہ تعالیٰ نے شروع سورت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نازل کردہ کتاب کا ذکر فرمایا اور اس کا مقصد بتایا کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں۔ اب پہلے انبیاء کی اپنی اقوام کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لانے کی کوششوں اور ان کی اقوام کے سلوک کا ذکر فرمایا۔ سب سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کا، پھر دوسری اقوام اور ان کے رسولوں کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو کچھ آیات کونیہ عطا فرمائیں، یعنی کائنات کے معمول کے خلاف معجزے، جن کے مقابلے سے دشمن عاجز تھا۔ جن میں سے چند کا تعلق فرعون اور اس کی قوم سے تھا، مثلاً عصائے موسیٰ، ید بیضاء (طٰہٰ : ۱۷ تا ۲۲)، قحط سالی، پھلوں کی کمی، طوفان، ٹڈیاں، جوئیں، مینڈک اور خون۔ (اعراف : ۱۳۳) یہ سب معجزے نبوت کی دلیل کے طور پر دیے گئے، کیونکہ مخاطب فرعون بے حد ضدی، سرکش، خدائی کا دعوے دار اور نہایت بے رحم تھا۔ جب کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کی دلیل کے طور پر صرف ایک معجزہ ’’قرآن‘‘ عطا ہوا، باقی تمام معجزات برکت اور اہل ایمان کا ایمان بڑھانے کے لیے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کے کئی معجزوں کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا، مثلاً سمندر کا پھٹنا، فرعون سے نجات، بادلوں کا سایہ، من و سلویٰ کا اترنا، بارہ چشمے پھوٹنا، پہاڑ اکھیڑ کر عہد لیا جانا، گائے کا گوشت لگنے سے مردے کا زندہ ہونا وغیرہ اور کچھ وحی الٰہی کی آیات تھیں جنھیں ’’تنزیلی آیات‘‘ کہتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام پر سب سے پہلی وحی تورات سے بہت پہلے مدین سے واپسی پر اتری، پھر اسی طرح کسی کتابی صورت کے بغیر سالہا سال اترتی رہی۔ فرعون اسی وحی کے احکام کی نافرمانی کی وجہ سے غرق ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو طور پر بلا کر تورات عطا فرمائی۔ غرض موسیٰ علیہ السلام کو تو تورات کے علاوہ بھی بہت سی آیات عطا فرمائیں، کیونکہ دشمن نہایت سخت تھا اور اپنی قوم خوئے غلامی کی وجہ سے بے حد متلون مزاج، کافرانہ عقائد و رسوم سے متاثر اور بار بار مطالبے کرنے والی تھی۔ اوپر تقریباً سترہ آیات (نشانیوں) کا ذکر ہوا ہے، مقصد سب کا یہی تھا کہ وہ فرعون کو اور اپنی قوم کو کفر کی تاریکیوں سے ایمان کی روشنی کی طرف نکالیں۔ 2۔ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ ....: ’’أَيَّامٌ‘‘ سے مراد وہ دن ہیں جن میں کوئی نادر واقعہ مصیبت یا نعمت کی صورت میں پیش آیا ہو، جیسے یوم بدر وغیرہ۔ ’’أَيَّامٌ‘‘ کی اللہ کی طرف اضافت سے ان کی اہمیت بے حد بڑھ گئی۔ اگلی آیت میں چند ’’أَيَّامٌ‘‘ کا ذکر ہے، مگر ان واقعات سے عبرت صرف انھی کو ہوتی ہے جو بہت صابر اور بہت شاکر ہوں، کیونکہ ہر نیکی کی بنیاد صبر ہے اور شکر بھی اسی کو نصیب ہوتا ہے جو صابر ہو، شکوہ شکایت اور بے صبری کرنے والوں کو شکر کی توفیق کہاں؟