الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
الر (١) یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ پر نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائیں، انہیں اس اللہ کی راہ پر ڈال دیں جو بڑا زبردست بڑی تعریفوں والا ہے۔
1۔ الٓرٰ: حروف مقطعات کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی پہلی آیت۔ 2۔ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ:’’ كِتٰبٌ ‘‘ کو ’’ الٓرٰ ‘‘ کی خبر بنائیں تو معنی ہو گا کہ’’ الٓرٰ ‘‘ ایک کتاب ہے، یعنی وہ حروف تہجی جن سے تمھارا کلام وجود میں آتا ہے، انھی سے یہ کتاب وجود میں آئی ہے، اگر مقابلے کی ہمت ہے تو آؤ انھی حروف سے تم صرف ایک سورت ہی بنا دو۔ ایک صورت یہ ہے کہ اسے مبتدا محذوف ’’هٰذَا‘‘ کی خبر بنا لیں، پھر معنی ہو گا، یہ ایک کتاب ہے۔ ’’نازل کیا‘‘ کے لفظ سے اس کا بلندی سے اترنا اور اللہ تعالیٰ کا بلندی پر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کو نہ لامکان کہہ سکتے ہیں اور نہ ہر جگہ میں کہہ سکتے ہیں، بلکہ وہ بلند ہے، عرش پر ہے۔ ’’ہم نے اسے آپ کی طرف نازل کیا‘‘ سے اس کی عظمت ظاہر ہو رہی ہے۔ 3۔ لِتُخْرِجَ النَّاسَ: یعنی یہ کتاب آپ پر نازل کی، تاکہ آپ اس کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہی سے نکالیں۔ معلوم ہوا کہ منکرین حدیث جو کتاب یعنی قرآن ہی کو کافی سمجھتے ہیں اور رسول کو محض ڈاکیا قرار دیتے ہیں ان کی بات درست نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب نازل فرما کر اس میں بار بار رسول کے اتباع اور اطاعت کا حکم دیا ہے، مثلاً دیکھیے آل عمران (۳۱، ۳۲)۔ 4۔ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ: یعنی کفر کی تاریکیوں سے ایمان کی روشنی کی طرف۔ ’’ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ ‘‘ یہ ’’ اِلَى النُّوْرِ ‘‘ ہی سے بدل ہے اور اسی کی وضاحت ہے، یعنی وہ نور کیا ہے، اس عزیز و حمید کا راستہ ہے جس کا نام نامی اللہ ہے، وہ جو زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب کا اکیلا مالک ہے۔ لفظ ’’ الظُّلُمٰتِ ‘‘ کو جمع اور ’’ النُّوْرِ ‘‘ کو واحد لانے سے صاف ظاہر ہے کہ نور یعنی راہ ہدایت صرف ایک ہے یعنی اسلام، جبکہ تاریکیاں اور گمراہیاں بے شمار ہیں جو سب کی سب کفر کی مختلف صورتیں ہیں۔ 5۔ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ : اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کوئی مبلغ، چاہے وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، لوگوں کو اگر اسلام کی سیدھی راہ کی طرف لا سکتا ہے تو اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے لا سکتا ہے۔ ابوطالب، آزر، ابن نوح اور نوح و لوط علیھما السلام کی بیویاں اس کی واضح مثالیں ہیں کہ رب کا اذن نہ ہونے کی وجہ سے کفر کے اندھیروں سے نہیں نکل سکے۔ 6۔ وَ وَيْلٌ لِّلْكٰفِرِيْنَ: ’’ وَيْلٌ ‘‘ پر تنوین تعظیم کی ہے، معنی ہے بڑی ہلاکت، یعنی دنیا میں بھی ان کے لیے بربادی ہی بربادی ہے۔ (دیکھیے توبہ : ۵۵۔ طٰہٰ : ۱۲۴ تا ۱۲۷) اور قیامت کے دن تو ان کی اس سے بھی بڑھ کر شامت آنے والی ہے۔ دنیا میں کفار کے لیے ’’وَيْلٌ ‘‘ کی ایک معمولی سی مثال یہ ہے کہ خودکشی کی شرح آپ سب سے زیادہ کفار میں پائیں گے، خصوصاً جو ان میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں، مثلاً جاپان وغیرہ۔