لَّهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَقُّ ۖ وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ
انہیں دنیا کی زندگی میں عذاب (٣٢) ملے گا اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی سخت ہوگا اور انہیں اللہ سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
لَهُمْ عَذَابٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ....: یعنی دنیا ہی میں بعض اوقات آسمانی آفات، بیماریوں، فاقوں اور مختلف مصیبتوں کے ذریعے سے عذاب ہو گا اور بعض اوقات مجاہدین اسلام کے ہاتھوں قید، قتل یا ذلیل ہوں گے اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت ہے۔ اس کی ایک جھلک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( نَارُكُمْ هٰذِهِ الَّتِيْ يُوْقِدُ ابْنُ آدَمَ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِيْنَ جُزْءًا مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ … كُلُّهَا مِثْلُ حَرِّهَا)) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب جہنم أعاذنا اللّٰہ منہا : ۲۸۴۳، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ]’’تمھاری یہ آگ جو ابن آدم جلاتا ہے، جہنم کی گرمی کے ستر (۷۰) حصوں میں سے ایک حصہ ہے… سب کی گرمی اس کی مثل ہے۔‘‘ اور آخرت کے عذاب کے بہت زیادہ سخت ہونے کا سب سے بڑا باعث یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ فجر (۲۵، ۲۶) اور سورۂ فرقان (۱۱ تا ۱۵)۔