كَذَٰلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَا أُمَمٌ لِّتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَٰنِ ۚ قُلْ هُوَ رَبِّي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ
ہم نے اسی طرح آپ کو ایسی قوم کے لیے رسول (٢٦) بنا کر بھیجا ہے جن کے پہلے بہت سی قومیں گزر چکی ہیں، تاکہ آپ انہیں وہ قرآن پڑھ کر سنائیں جو ہم نے آپ کو بذریعہ وحی دیا ہے، اور وہ لوگ نہایت رحم کرنے والے اللہ کی ناشکری کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ وہی میرا رب ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف مجھے لوٹنا ہے (یا وہی میرا ملجا و ماوی ہے)
1۔ كَذٰلِكَ اَرْسَلْنٰكَ فِيْ اُمَّةٍ: امت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک وہ لوگ جن کی طرف رسول بھیجا جائے، وہ مسلمان ہوں یا کافر، جیسے قوم ثمود کا ہر مسلم و کافر صالح علیہ السلام کی امت تھا اور عاد کا ہر فرد ہود علیہ السلام کی امت میں سے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد قیامت تک ہر مسلم و کافر، یہودی، نصرانی، ہندو اور دہریہ، غرض ہر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہے، اسے امتِ دعوت کہا جاتا ہے، پھر جو لوگ رسول کی دعوت کو قبول کر لیں وہ امتِ اجابت کہلاتے ہیں، اس آیت میں امتِ دعوت مراد ہے۔ 2۔ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهَا اُمَمٌ : یعنی نہ آپ پہلے رسول ہیں نہ آپ کی امتِ دعوت کوئی پہلی امت ہے۔ اس سے مقصود آپ کی امت کو پہلی جھٹلانے والی امتوں کے انجام بد سے ڈرانا ہے۔ 3۔ لِتَتْلُوَاۡ عَلَيْهِمُ الَّذِيْ اَوْحَيْنَا اِلَيْكَ : یعنی آپ کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ انھیں وہ آیات و احکام پڑھ کر سنائیں جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیے۔ ’’ عَلَيْهِمُ ‘‘ سے اولین مراد قریش مکہ ہیں اور پھر بعد میں قیامت تک آنے والے تمام لوگ بھی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (2) وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ﴾ [ الجمعۃ : ۲، ۳ ] ’’وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔ اور ان میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (آپ کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ ’’جو ابھی تک ان سے نہیں ملے‘‘ سے مراد قیامت تک کے لوگ ہیں۔ 4۔ وَ هُمْ يَكْفُرُوْنَ بِالرَّحْمٰنِ: یعنی اللہ نے اپنی رحمت سے ان لوگوں پر کرم فرمایا کہ آپ کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا، مگر ان کی ناشکری کا حال یہ ہے کہ اس کا حق پہچاننے سے منکر ہو گئے ہیں۔ کفار مکہ اللہ کے خالق ہونے کا تو اقرار کرتے تھے، مگر اس کے ’’رحمان‘‘ ہونے کے منکر تھے، بلکہ جب اللہ تعالیٰ کے رحمان ہونے اور اسے اس نام سے پکارنے کی دعوت دی جاتی تو اس سے چڑتے اور کہتے : ﴿ وَ مَا الرَّحْمٰنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًا ﴾ [ الفرقان : ۶۰ ] ’’رحمان کیا چیز ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو ہمیں حکم دیتا ہے اور یہ بات انھیں بدکنے میں بڑھا دیتی ہے۔‘‘ نیز حدیبیہ کے صلح نامہ پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘ لکھوانا چاہا تو کفار کے نمائندے سہیل بن عمرو نے کہا : ’’اللہ کی قسم! میں رحمان کو نہیں جانتا کہ وہ کون ہے، آپ ’’بِاسْمِكَ اللّٰهُمَّ‘‘ لکھوائیے۔‘‘ [ بخاری، الشروط، باب الشروط في الجہاد ....: ۲۷۳۱، ۲۷۳۲ ] ’’ الرَّحْمٰنُ ‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور اسم اللہ کے بعد سب سے محترم نام ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ أَحَبَّ أَسْمَائِكُمْ إِلَی اللّٰهِ عَبْدُ اللّٰهِ وَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ)) [ مسلم، الآداب، باب النھي عن التکني بأبی القاسم....: ۲۱۳۲ ] ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پیارے نام عبد اللہ اور عبد الرحمان ہیں۔‘‘