اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ
اللہ جس کے لیے چاہتا ہے روزی میں وسعت (٢٢) دیتا ہے، اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، اور وہ لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں ایک عارضی فائدہ ہے۔
1۔ اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ.....: بہت سے لوگوں کی گمراہی کا سبب یہ شبہ بن جاتا ہے کہ اللہ کے نافرمان دنیا میں خوش حال کیوں ہیں ؟ اس کا جواب دیا، یعنی دنیا میں رزق کی فراوانی یا تنگی کوئی معیار نہیں ہے، جس کے لحاظ سے کسی شخص کے اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ یا غیر پسندیدہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے، بسا اوقات وہ کافر کو خوب سامانِ عیش دیتا ہے اور مومن پر تنگ دستی وارد کرتا ہے، تاکہ دونوں کی آزمائش کی جائے، مومن اپنے صبر و شکر کی وجہ سے آخرت میں بلند درجات پاتا ہے اور کافر ناکام رہتا ہے، اس لیے آخرت میں اس کا ٹھکانا برا ہوتا ہے، لہٰذا گمراہ لوگوں کی بداعمالیوں کے باوجود ان کے عیش و عشرت سے کسی کو دھوکا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ محض مہلت ہے جو کافر کو دنیا میں دی جاتی ہے۔ (روح المعانی) 2۔ وَ فَرِحُوْا بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ....: ’’ مَتَاعٌ ‘‘ کی تنوین تقلیل وتحقیر کے لیے ہے، یعنی معمولی، تھوڑا سا بے قدر و قیمت سامان، یعنی کفار دنیا کی زندگی کی آسائشوں پر پھول رہے ہیں، حالانکہ یہ آخرت کے مقابلے میں محض معمولی اور بے حقیقت تھوڑی دیر کا سامان ہے۔ مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَاللّٰهِ! مَا الدُّنْيَا فِيْ الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هٰذِهِ ــ وَأَشَارَ يَحْيَی بِالسَّبَّابَةِ ــ فِي الْيَمِّ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ بِمَ تَرْجِعُ)) [مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب فناء الدنیا....: ۲۸۵۸ ] ’’اللہ کی قسم! دنیا آخرت کے مقابلے میں اس مثال کے سوا کچھ نہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی یہ انگلی۔‘‘ اور راوی یحییٰ نے شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کیا ’’سمندر میں ڈالے، پھر دیکھے کہ وہ کیا چیز لے کر واپس آتی ہے۔‘‘ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( نَامَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلٰی حَصِيْرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِيْ جَنْبِهِ، فَقُلْنَا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! لَوِ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَاءً، فَقَالَ مَا لِيْ وَ لِلدُّنْيَا، مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلاَّ كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا)) [ ترمذی، الزھد، باب حدیث ما الدنیا إلا کراکب استظل : ۲۳۷۷ ] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر سوئے، اٹھے تو چٹائی نے آپ کے پہلو پر اپنے نشان لگا دیے تھے۔ ہم نے عرض کی : ’’یا رسول اللہ! اگر ہم آپ کے لیے نرم بستر بنا دیں تو؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میرا اور دنیا کا کیا تعلق! میں تو دنیا میں محض اس سوار کی طرح ہوں جس نے ایک درخت کے سائے میں آرام کیا، پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیا۔‘‘