لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
صرف اسی کو پکارنا حق ہے (١٤) اور جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ ان کی کوئی حاجت پوری نہیں کرتے ہیں، ان کی حالت اس آدمی کی ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے، تاکہ اس کے منہ تک پہنچ جائے، حالانکہ وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا، اور کافروں کا اپنے معبودوں کو پکارنا رائیگاں ہی جاتا ہے۔
1۔ لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ : یہاں موصوف اپنی صفت کی طرف مضاف ہے، یعنی سچا اور برحق پکارنا صرف اسی کو پکارنا ہے، دوسرے کسی کو بھی پکارنا باطل ہے۔ کیونکہ دور و نزدیک سے ہر ایک کی پکار سنتا بھی وہی ہے، ہر ایک کے احوال سے واقف بھی وہی ہے اور ہر ایک کی حاجت پوری کرنے کی قدرت بھی صرف وہی رکھتا ہے، کسی اور میں ان صفات میں سے کوئی صفت بھی نہیں۔ 2۔ وَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ.....: ’’ يَدْعُوْنَ ‘‘ کی ضمیر مشرکین کے لیے ہے، یعنی اللہ کے سوا کسی کو بھی پکارنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے تاکہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے، اب پانی نہ اس کی بات سنتا ہے، نہ سمجھتا ہے اور نہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ خود بخود اس کے منہ تک پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ان خود ساختہ خداؤں کی بے بضاعتی اور بے بسی بڑی تفصیل سے بیان فرمائی۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۹۱ تا ۱۹۸)، سبا (۲۲)، فاطر (۱۳، ۱۴)، احقاف (۵) اور حج (۷۳) قارئین سے درخواست ہے کہ وہ یہ مقامات نکال کر ترجمہ ضرور پڑھیں، ان شاء اللہ توحید کی ٹھنڈک دل میں محسوس کریں گے۔ 3۔ وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِيْنَ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ: یعنی کافروں کا غیر اللہ کو پکارنا سراسر بے سود ہے، جس سے کچھ حاصل نہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’کافر جن کو پکارتے ہیں بعض محض خیال ہیں، بعض جن اور بعض ایسی چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں، لیکن وہ اپنے خواص کی مالک نہیں، پھر ان کے پکارنے سے کیا حاصل۔ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں، یہ اس کی مثال فرمائی۔‘‘ (موضح) اس کی مختصر سی تفصیل سمجھ لیں کہ فرشتے ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں، سنتے بھی ہیں، طاقت بھی رکھتے ہیں مگر وہ اللہ کے اذن کے بغیر کچھ بھی نہ کر سکتے ہیں اور نہ کرتے ہیں۔ تو انھیں پکارنا ایسے ہی ہے جیسے پانی کو اشارے سے یا زبان سے کہا جائے کہ وہ منہ میں آ جائے، حالانکہ اس میں یہ قدرت ہی نہیں اور بالفرض ہو بھی تو وہ یہ اختیار نہیں رکھتا۔