وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ وَيُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَن يَشَاءُ وَهُمْ يُجَادِلُونَ فِي اللَّهِ وَهُوَ شَدِيدُ الْمِحَالِ
اور بجلی کی کڑک اور فرشتے اس کے خوف سے اس کی حمد و ثنا میں لگے رہتے ہیں، اور وہ جلا دینے والی بجلیوں کو بھیجتا ہے، جسے جس پر چاہتا ہے گرا دیتا ہے اور وہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، حالانکہ وہ بہت ہی زبردست اور شدید گرفت کرنے والا ہے۔
1۔ وَ يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ.....: ’’ الرَّعْدُ ‘‘ یعنی بادل کی گرج، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت، جلال اور عظمت کے بیان کے لیے بادل کی گرج، گرنے والی بجلیوں اور ان کی کڑک کا ذکر فرمایا۔ یہ اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر کمی اور ہر عیب سے پاک اور ہر کمال اور ہر خوبی کا مالک ہے اور فرشتے بھی اس کے خوف کی وجہ سے تسبیح و تحمید کرتے ہیں، بلکہ کائنات کی ہر چیز کا یہی وظیفہ ہے، فرمایا : ﴿ وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ﴾ [ بنی إسرائیل : ۴۴ ] ’’اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔‘‘ قرآن مجید میں کئی چیزوں کا صاحب احساس ہونا اور بولنا مذکور ہے، جنھیں ہم بے زبان سمجھتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں چیونٹی کی بات اور سلیمان علیہ السلام کا اسے سمجھنا، اسی طرح ہدہد سے ان کی گفتگو سورۂ نمل میں مذکور ہے۔ سورۂ بقرہ میں پتھروں کا اللہ کے خوف سے گرنا، پھٹ جانا اور ان سے پانی بہ نکلنا مذکور ہے۔ جہنم اور جنت کی گفتگو قرآن وحدیث میں آئی ہے اور اب تو سائنس نے نباتات میں شعور و احساس تجربے سے ثابت کیا ہے۔ کفار کے مرنے پر آسمان و زمین کا نہ رونا سورۂ دخان (۲۹) میں ہے۔ پرندوں اور پہاڑوں کا داؤد علیہ السلام کے ساتھ مل کر صبح و شام تسبیح کا ذکر کرنا سورۂ ص (۱۸، ۱۹) میں ہے۔ ’’ الرَّعْدُ ‘‘ کے متعلق چند احادیث معروف ہیں۔ ایک لمبی روایت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا : ’’ الرَّعْدُ ‘‘ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے جو بادل پر مقرر ہے، اس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہے، جس کے ساتھ وہ بادل کو ہانکتا ہے اور جو آواز اس سے سنائی دیتی ہے وہ اس کے بادل کو ہانکنے کی آواز ہے، جب وہ اسے ہانکتا ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اسے حکم دیتا ہے۔‘‘ یہ حدیث ترمذی (۳۱۱۷) ، مسند احمد (۱؍۲۷۴، ح : ۲۴۸۷) اور سنن کبریٰ للنسائی (۶؍۳۳۶، ح : ۹۰۷۲) وغیرہ میں ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ (۴؍۴۹۱، ح : ۱۸۷۲) میں ذکر فرمایا ہے اور لمبی بحث کے بعد فرمایا ہے کہ میرے نزدیک یہ حدیث کم از کم حسن ضرور ہے۔ البتہ مسند احمد کی تخریج میں شعیب ارنؤوط نے ابن عباس رضی اللہ عنھما کی اس لمبی حدیث کو حسن کہا ہے، مگر اس کے اس رعد والے حصے کو منکر کہا ہے۔ (واللہ اعلم) اگر کوئی کہے کہ سائنس تو اسے بادل کے ٹکڑوں کی رگڑ کا نتیجہ قرار دیتی ہے تو اسے کہیں کہ یہ بات حدیث کے خلاف نہیں، وہ رگڑ بھی تو کسی کے حکم سے بادلوں کے چلنے کے نتیجے ہی میں پیدا ہوتی ہے۔ کائنات کی کوئی بھی چیز خود بخود نہیں چل رہی۔ قبیلہ بنو غفار کے ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنْشِئُ السَّحَابَ فَيَنْطِقُ أَحْسَنَ النُّطْقِ وَيَضْحَكُ أَحْسَنَ الضَّحْكِ)) [ السلسلۃ الصحیحۃ :2؍409، ح : ۱۶۶۵ ] ’’اللہ تعالیٰ بادل کو پیدا کرتا ہے تو وہ بولتا ہے، بہترین بولنا اور ہنستا ہے، بہترین ہنسنا۔‘‘ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیحہ میں اسے مسند احمد اور کئی کتب حدیث کے حوالے سے ذکر کرکے اس کی سند کو صحیح کہا اور شعیب ارنؤوط نے بھی مسند احمد (۳۹؍۹۱، ۹۲، ح: ۲۳۶۸۶) میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ گرج اور چمک بادل ہی کی گفتگو اور اسی کا ہنسنا ہے۔ رہی یہ بات کہ ’’رعد‘‘ فرشتے کی آواز ہے یا بادل کی گفتگو، تو حقیقت یہ ہے کہ دونوں باتیں ہی درست ہیں، ان میں کوئی تضاد نہیں۔ 2۔ وَ يُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ.....: مفردات راغب میں ہے کہ ’’صاعقہ‘‘ تین معنوں میں آتا ہے : (1) موت، جیسے : ﴿فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ ﴾ [ الزمر : ۶۸ ] (2) عذاب، جیسے : ﴿ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۱۳ ] (3) آگ، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ يُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ ﴾ [ الرعد : ۱۳ ] کیونکہ صاعقہ کا معنی فضا میں پیدا ہونے والی نہایت سخت آواز (بجلی کی کڑک) ہے، پھر اس کے نتیجے میں مذکورہ تین چیزوں میں سے کوئی بھی چیز واقع ہو سکتی ہے، گویا حقیقت میں صاعقہ ایک ہی چیز ہے، باقی اس کے اثرات ہیں۔ صاعقہ کے ساتھ نکلنے والی بجلی کی چمک نہایت تیز ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کڑکنے والی بجلیوں کو بھیجتا ہے، پھر جن پر چاہتا ہے بجلی گرا دیتا ہے، جبکہ وہ بے فکر ہو کر اللہ تعالیٰ کے متعلق جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ 3۔ وَ هُمْ يُجَادِلُوْنَ فِي اللّٰهِ : یعنی اتنی نشانیاں دیکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، کبھی اس کے کمال علم و قدرت اور اکیلے معبود ہونے کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ دوبارہ زندہ کیسے کرے گا اور کبھی اس کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور کبھی اس کے عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں۔ 4۔ وَ هُوَ شَدِيْدُ الْمِحَالِ: امام راغب نے ’’ الْمِحَالِ ‘‘ کا مادہ ’’ مَحْلٌ ‘‘ بتایا ہے اور ’’ شَدِيْدُ الْمِحَالِ ‘‘ کا معنی کیا ہے : ’’شَدِيْدُ الْأَخْذِ بِالْعُقُوْبَةِ‘‘ یعنی وہ سزا دینے میں سخت گرفت والا ہے۔ امام راغب ہی نے بعض اہل علم کا قول لکھا ہے کہ اس کا مادہ ’’حَوْلٌ‘‘ ہے، بمعنی ’’ قُوَّةٌ ‘‘ یعنی وہ بہت سخت قوت والا ہے۔ اس صورت میں میم زائد ہے۔