سورة الرعد - آیت 10

سَوَاءٌ مِّنكُم مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَن جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تم میں سے کوئی چاہے اپنی بات چھپائے اور چاہے کوئی اسے ظاہر کرے، اور چاہے کوئی رات کی تاریکی میں چھپ کر کچھ کرے یا دن کی روشنی میں کرے، اس کے نزدیک سب برابر ہے (١٠)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

سَوَآءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ.....: یہ اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت کی ایک اور تاکید ہے، یعنی تمھارا کوئی آدمی چھپا کر بات کرے یا بلند آواز سے اللہ کے نزدیک دونوں برابر ہیں، وہ دونوں کو یکساں سنتا ہے، جبکہ تم اور ساری مخلوق چھپی بات کو تو سن ہی نہیں سکتے، البتہ بلند آواز سے کی ہوئی ایک شخص کی بات تم سن اور سمجھ سکتے ہو، مگر جب چار چھ آدمی اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیں تو کسی کے پلے کچھ نہیں پڑے گا، اب اللہ تعالیٰ کے علم کا اندازہ کر لو کہ اس کے ہاں یہ سب برابر ہیں، وہ ایک ہی وقت میں سب کی سنتا اور سمجھتا اور سب کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ 2۔ ’’ مُسْتَخْفٍ ‘‘ ’’ خَفِيَ يَخْفَي ‘‘ (چھپنا) کے باب استفعال سے اسم فاعل برائے مبالغہ ہے، بالکل چھپنے والا۔ ’’ بِالَّيْلِ ‘‘ رات کو، کیونکہ رات کی تاریکی چھپنے میں مزید مدد دیتی ہے۔ ’’ سَارِبٌ ‘‘ یعنی ظاہر، ’’ سَرَبَ فِي الْاَرْضِ اَيْ ذَهَبَ فِيْ طَرِيْقِهٖ‘‘ وہ اپنے راستے میں گیا، یعنی گھر کے کسی کمرے یا کونے کے بجائے راستے یا گلی بازار میں پھرنے والا اور وہ بھی دن کو ہر ایک کے سامنے ہوتا ہے۔ دن کا ذکر خصوصاً اس لیے کیا کہ وہ ہر چیز کو خوب ظاہر کر دیتا ہے۔ اس لیے بعض اہل علم نے ’’ سَارِبٌ ‘‘ کا معنی گلیوں میں پھرنے والا، یعنی بالکل ظاہر کیا ہے۔ یعنی یہ سب اس کے علم میں برابر ہیں۔