سورة الرعد - آیت 2

اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ اللہ کی ذات ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں (٢) کے جنہیں تم دیکھ سکو، اوپر اٹھایا، پھر عرش مستوی پر مستوی ہوگیا، اور آفتاب و ماہتاب کو ڈیوٹی کا پابند بنا دیا، دونوں ایک معین مدت کے لیے چلتے رہتے ہیں، وہی تمام معاملات کا انتظام کرتا ہے، اپنی آیتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے، تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ : لفظ ’’ اَللّٰهُ ‘‘ اس پاک ہستی کا ذاتی نام ہے جس نے سب کچھ بنایا اور اسے چلا رہا ہے۔ اس ایک لفظ میں اس کی ساری صفات آجاتی ہیں۔ ایمان اس ہستی کی توحید، اس کے رسولوں کی تصدیق اور اس کے سامنے قیامت کو پیش ہونے کے عقیدے کا نام ہے۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے آسمان و زمین میں اپنی قدرت کی کچھ نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے، تاکہ وہ توحید و رسالت اور قیامت پر ایمان لے آئے۔ سب سے پہلے آسمان کا ذکر فرمایا، سورۂ نازعات (۲۷) میں فرمایا : ’’کیا تمھیں (پہلی بار یا دوبارہ) پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کو؟‘‘ اپنے وجود اور آسمان کے وجود کا مقابلہ کرکے تو دیکھو، اور فرمایا : ﴿ لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ ﴾ [ المؤمن : ۵۷ ] ’’یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے سے زیادہ بڑا (کام) ہے۔‘‘ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا : ’’عَمَدٍ ‘‘ اسم جمع ہے، جمع نہیں، اس کا مفرد ’’عَمُوْدٌ‘‘ یا ’’عِمَادٌ‘‘ ہے۔ (شعراوی) اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس قدر وسیع اور عظیم آسمانوں کو کسی بھی قسم کے ستونوں کے بغیر بلند کر دیا، تم خود انھیں دیکھ رہے ہو کہ ان کے نیچے کوئی ستون نہیں، جب کہ تم چھوٹی سے چھوٹی چھت بھی دیواروں یا ستونوں کے بغیر نہیں بنا سکتے۔ محض اپنی قدرت اور بے پناہ قوت کے ساتھ اتنا اونچا بنانے کے بعد وہیں تھام کر رکھنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿وَ يُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ﴾ [ الحج : ۶۵ ] ’’اور وہ آسمان کو تھام کر رکھتا ہے، اس سے کہ زمین پر گر پڑے مگر اس کے اذن سے۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ فاطر(۴۱) اس صورت میں ’’ تَرَوْنَهَا ‘‘ (تم انھیں دیکھتے ہو) میں ضمیر کا مرجع لفظ ’’السَّمٰوٰتِ ‘‘ ہو گا اور ’’ تَرَوْنَهَا ‘‘ الگ نیا جملہ ہو گا کہ تم خود آسمانوں کو اس حالت میں دیکھ رہے ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’تَرَوْنَهَا ‘‘ کو ’’ عَمَدٍ ‘‘ کی صفت قرار دیا جائے، پھر ترجمہ یہ ہو گا کہ اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بلند فرمایا جنھیں تم دیکھتے ہو، گویا ستون ہیں مگر تمھیں نظر نہیں آتے، نہ کہیں نگاہ کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔ آیت دونوں معنوں کا امکان رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دونوں ممکن ہیں، اس لیے ترجمہ میں بھی دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ علمائے تفسیر میں سے کسی نے پہلے معنی کو ترجیح دی اور کسی نے دوسرے کو۔ امام المفسرین طبری رحمہ اللہ نے فرمایا، حق یہ ہے کہ ہم بھی اسی طرح کہیں جیسے اللہ نے فرمایا۔ (خلاصہ) یعنی پورے علم کے بغیر ایک معنی کو ترجیح نہ دیں۔ (واللہ اعلم) (یہاں طبری کے فیصلے کی پوری عبارت نہایت پُر لطف ہے) کیا معلوم کہ کسی وقت تجزیے سے ثابت ہو جائے کہ فضا میں نظر نہ آنے والی کوئی چیز موجود ہے جس پر آسمان قائم ہیں۔ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ : قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا سات جگہ آتا ہے، سورۂ اعراف (۵۴)، یونس (۳)، رعد (۲)، طٰہٰ (۵)، فرقان (۵۹)، سجدہ (۴) اور حدید (۴) اللہ تعالیٰ کے تعلق سے عرش کا ذکر اکیس (۲۱) مرتبہ اور ملکہ سبا کے تعلق سے چار (۴) مرتبہ آیا ہے۔ مستوی علی العرش کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۵۴) اور سورۂ حاقہ (۱۷)۔ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ : یہاں سے اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی چند نہایت واضح نعمتیں ذکر فرمائیں۔ تسخیر کا معنی ہے کسی کو اپنے تابع اور قابو میں کر لینا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو اپنے تابع اور پوری طرح پابند کر رکھا ہے، اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جس طرح جس کام پر لگا دیا ہے وہ اس سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ جو مدت مقرر کی ہے اس کے عین مطابق مقرر وقت پر چل رہے ہیں، یعنی قیامت تک یا اپنے دورے کے مقرر وقت کے مطابق، نہ ان کی رفتار بدلتی ہے نہ طلوع وغیرہ کے نظام میں فرق آتا ہے۔ سورج اپنا دورہ سال میں پورا کرتا ہے، چاند ایک ماہ میں۔ کسی بھی سیارے یا سورج اور چاند کا آپس میں نہ کوئی ٹکراؤ ہے نہ حادثہ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت و حکمت کی کتنی بڑی نشانی ہے۔ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ : کسی کام کی تدبیر کا معنی اسے اس کے سب سے اچھے، مضبوط اور مکمل طریقے پر چلانا ہے۔ مختصر سے عطا کردہ اختیار سے تم جو تدبیریں کرتے ہو ان کا نتیجہ بھی دیکھ لو، کوئی پوری ہوتی ہے کوئی نہیں اور کوئی کسی حادثے کی نذر ہو جاتی ہے اور اس عزیز و حکیم کی تدبیر امور کو دیکھو۔ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ: اس میں کائنات میں موجود نشانیاں بھی شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں پر نازل شدہ آیات بھی کھول کر بیان کرنا ہے کہ دونوں کس قدر واضح ہیں، جن کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ : یعنی ان تمام آیات کی تفصیل کا مقصد تمھیں یہ یقین دلانا ہے کہ ایسی عظیم مخلوقات کو پیدا کرنے اور ان کی تدبیر کرنے والے پروردگار کے لیے تمھیں دوبارہ پیدا کرنا کچھ مشکل نہیں اور ہر حال میں تمھیں اس کے سامنے پیش ہونا ہے۔