وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَوْا ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اور آپ سے پہلے ہم نے جتنے انبیاء بھیجے، سبھی شہر کے شہر رہنے والوں میں سے مرد (٩٥) تھے جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے، کیا ان لوگوں نے زمین کی سیر (٩٦) نہیں کی ہے، تاکہ دیکھتے کہ جو کافر قومیں ان سے پہلے گزر چکی ہیں ان کا انجام کیا ہوا، اور اہل تقوی کے لیے یقینا آخرت کی منزل بہت ہی اچھی ہوگی کیا تمہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔
1۔ وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ ....: اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسان ہونے کی وجہ سے نبی ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اترے۔ (دیکھیے فرقان : ۲۱) یہ رسول تو ہماری طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ (دیکھیے فرقان : ۷) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے تمام رسول ’’رِجَالٌ‘‘ (مرد) ہی بھیجے۔ دوسرے مردوں سے ان کا فرق یہ تھا کہ ہم ان کی طرف وحی کرتے تھے جس سے دوسرے لوگ محروم تھے۔ 2۔ اِلَّا رِجَالًا: اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ کچھ عورتیں بھی پیغمبر ہوئی ہیں، مثلاً حوا، آسیہ، سارہ، ام موسیٰ اور مریم علیھن السلام۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان عورتوں کو فرشتوں کے ذریعے سے وحی یا بشارت تو ضرور ملی ہے مگر اس سے ان کا معروف معنی میں نبی ہونا لازم نہیں آتا۔ نبی وہ ہے جس پر شرع کے احکام اتریں اور اس قسم کی وحی کسی عورت پر نہیں اتری، یہ شرف رجال (مردوں) ہی کو حاصل رہا ہے۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت فرما دی تھی کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، مگر اس آیت میں ان عورتوں کے جھوٹے دعوے کا پیشگی مزید رد ہے جنھوں نے آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تھا، مثلاً سجاح نامی عورت۔ چنانچہ فرمایا کہ آپ سے پہلے ہم نے مردوں کو رسول بنا کر بھیجا، عورتوں کا اس میں کچھ دخل نہیں، کیونکہ رسول نے مردوں کو بھی دعوت دینا ہوتی ہے، الجھنا بھی پڑتا ہے، جنگ بھی ہوتی ہے اور یہ کام عورت کے بس کے نہیں ہیں۔ 3۔ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى: اکثر اہل علم اس سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ نبی ہمیشہ شہروں اور بستیوں کے رہنے والوں میں سے آئے ہیں، بادیہ یا صحرا نشینوں سے نہیں آئے، کیونکہ بادیہ نشین قدرتی طور پر غیر سنجیدہ اور سخت طبع ہوتے ہیں۔ مگر ابن عاشور رحمہ اللہ نے فرمایا:’’یہ حصر اضافی ہے حقیقی نہیں۔‘‘ یعنی جو بات تم کہہ رہے ہو کہ آسمان سے فرشتہ اترنا چاہیے، یہ بات درست نہیں، تمام پیغمبر انسان ہی تھے اور زمین کی بستیوں ہی کے رہنے والے تھے، آسمان سے نہیں اترے تھے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ یعقوب علیہ السلام بدو میں رہتے تھے اور پیغمبر تھے، جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ وَ جَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ ﴾ [ یوسف : ۱۰۰ ] یاپھر یہ کہا جائے کہ یعقوب علیہ السلام بھی بستی ہی میں رہتے تھے، مگر ترقی یافتہ اور متمدن شہر مصر کے مقابلے میں اس بستی کنعان کی حیثیت بھی بدو اور صحرا کی تھی، جیسا کہ پیچھے گزرا۔ 4۔ اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ....: کفار آخرت کو تو مانتے نہیں تھے، اس لیے انھیں سمجھانے کے لیے دنیا میں گزرنے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے شام کو جاتے ہوئے پہاڑوں کو کھود کر بنائے ہوئے قوم ثمود کے مکانات اور قوم لوط کی بستیوں کی جگہ والاخرابہ اور پھر مصر کے اہرام نہیں دیکھیے کہ انھیں عبرت ہوتی۔ 5۔ وَ لَدَارُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ.....: اگرچہ پچھلے کلام کا تقاضا تھا کہ کہا جاتا کہ ان کفار سے آخرت میں ہونے والا معاملہ اس سے بھی کہیں برا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے ان کا ذکر ہی چھوڑ کر متقی لوگوں کا انجام ذکر فرمایا، جس سے ان کا انجام خود بخود ظاہر ہو رہا ہے، اسے بلاغت کی اصطلاح میں احتباک کہتے ہیں۔