سورة یوسف - آیت 106

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان کا دعوی (٩٢) تو کرتے ہیں، لیکن وہ مشرک ہوتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ ....: اللہ پر ایمان کے دعوے کے ساتھ شرک کرنے والوں کی پہلی مثال کفار قریش ہیں جو آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، خود ان مشرکین کو پیدا کرنے والے اور ہر چیز کی مکمل ملکیت رکھنے والے اللہ تعالیٰ کو جانتے اور مانتے تھے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ﴾ [ الزخرف : ۸۷ ] ’’اور یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ﴾ [ لقمان : ۲۵ ] ’’اور بلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔‘‘ اس کے علاوہ دیکھیے سورۂ مومنون (۸۴ تا ۸۹) اور یونس (۳۱ تا ۳۵) اور ساتھ ہی کچھ ہستیوں کو اللہ کے ہاں اپنے سفارشی، اللہ کے قریب کرنے والے اور اپنے کام نکلوانے والے سمجھتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَ لَا يَنْفَعُهُمْ وَ يَقُوْلُوْنَ هٰؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ [ یونس : ۱۸ ] ’’اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انھیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖ اَوْلِيَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَا اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى ﴾ [ الزمر : ۳ ] ’’اور وہ لوگ جنھوں نے اس کے سوا اور حمایتی بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں، اچھی طرح قریب کرنا۔‘‘ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ مشرکین کہتے تھے : (( لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ ))تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : (( وَيْلَكُمْ قَدْ قَدْ))’’تمھاری بربادی ہو، اس سے آگے مت کہنا‘‘ (مگر وہ کہتے) ((إِلاَّ شَرِيْكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهٗ وَمَا مَلَكَ ، يَقُوْلُوْنَ هٰذَا وَهُمْ يُطُوْفُوْنَ بِالْبَيْتِ)) [مسلم، الحج، باب التلبیۃ وصفتھا ووقتھا : ۱۱۸۵ ] ’’مگر ایک شریک جو تیرا ہی ہے، تو ہی اس کا مالک ہے، وہ مالک نہیں۔‘‘ وہ یہ الفاظ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے۔‘‘ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے، اس طرح بھی وہ اللہ پر ایمان کے دعوے کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے تھے۔ جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ جَعَلُوا الْمَلٰٓىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًااَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَ يُسْـَٔلُوْنَ ﴾ [ الزخرف : ۱۹ ] ’’اور انھوں نے فرشتوں کو، وہ جو رحمن کے بندے ہیں، عورتیں بنا دیا، کیا وہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے؟ ان کی گواہی ضرور لکھی جائے گی اور وہ پوچھے جائیں گے۔‘‘ مشرکین مکہ اللہ پر ایمان کے ساتھ ہی بزرگوں کے بتوں کی بھی پوجا کرتے تھے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰى (19) وَ مَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى (20) اَلَكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْاُنْثٰى (21) تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِيْزٰى (22) اِنْ هِيَ اِلَّا اَسْمَآءٌ ﴾ [النجم : ۱۹ تا ۲۳ ] ’’پھر کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا۔ اور تیسری ایک اور (دیوی) منات کو۔ کیا تمھارے لیے لڑکے ہیں اور اس کے لیے لڑکیاں؟ یہ تو اس وقت ناانصافی کی تقسیم ہے۔ یہ (بت) چند ناموں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔‘‘ انھوں نے عین کعبہ کے اندر ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کی صورتیں رکھی ہوئی تھیں۔ [ بخاري، الحج، باب من کبّر في نواحي الکعبۃ : ۱۶۰۱ ] اہل کتاب بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان کے دعوے دار تھے، اس کے باوجود عُزیر اور مسیح علیھما السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔ کبھی کہتے تھے، اللہ تعالیٰ خود ہی مسیح کی شکل میں آ گیا، اصل میں دونوں ایک ہیں : ﴿ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ ﴾ [المائدۃ : ۷۲ ] کبھی تین کو ایک کہتے، کبھی اللہ کو تین کا تیسرا کہتے : ﴿ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ ﴾ [المائدۃ : ۷۳ ] اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے سوا حلال و حرام کرنے کا اختیار رکھنے والے رب سمجھتے : ﴿ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ [ التوبۃ : ۳۱ ] ان کی قبروں پر مسجدیں بنا کر ان کی پرستش کرتے، فرمان رسول ہے : (( لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَی الْيَهُوْدِ وَالنَّصَارٰی اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ)) [بخاري، المغازی، باب مرض النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ووفاتہ : ۴۴۴۳، ۴۴۴۴ ] ’’اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انھوں نے اپنے انبیاء علیھم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘ افسوس کہ عرصۂ دراز سے اکثر کلمۂ اسلام پڑھنے والوں کا بھی یہی حال ہو گیا ہے، ان میں سے بہت سے لوگ اللہ پر ایمان کے دعوے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں زمین پر اتر آیا ہے۔ بعض اپنے پیر کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے آنے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ بعض اپنے بزرگوں کی عبادت کرتے کرتے ان کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ہی ہوجانے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ بے شمار بڑے بڑے نام والے عالموں، پیروں اور ان کے معتقدین نے ہندوؤں کی طرح ہر چیز کو اللہ تعالیٰ قرار دے کر اس کا نام وحدت الوجود رکھ دیا ہے اور اس صریح کفر و شرک کو معرفت کا نام دے رکھا ہے، حالانکہ اس عقیدے سے اسلام کا ہر حکم ہی ختم ہو جاتا ہے اور یہی وہ الحاد اور صریح کفر ہے جس پر اسلام کا نقاب ڈال کر یہ لوگ زبردستی مسلمان بلکہ اسلام کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ عام مسلمانوں میں سے کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو زندہ یا مردہ بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا مانتے ہیں، مصیبت میں ان کو پکارتے ہیں، ان سے اولاد اور عزت و مال کے لیے فریاد کرتے ہیں، ان کے نام کے وظیفے کرتے اور نیازیں دیتے ہیں، ان کی پختہ قبریں بنا کر ان کا طواف اور انھیں سجدے کرتے ہیں۔ غرض کہ جو کچھ مکہ کے مشرک اپنے بتوں کے ساتھ کرتے تھے یہ جھوٹے مسلمان اپنے داتاؤں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کے ساتھ کرتے ہیں اور دعویٰ اللہ تعالیٰ پر ایمان کا کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دے اور ہم سب کو شرک سے بچائے اور توحید پر قائم رکھے۔ (آمین) ایمان لانے کے باوجود شرک کرنے کی کچھ اور صورتیں بھی ہیں جن سے بچنا لازم ہے، مثلاً غیر اللہ کی قسم کھانا، ریاکاری یعنی دکھلاوا کرنا، بیماری سے بچنے کے لیے دھاگے، کڑے، منکے وغیرہ لٹکانا، بدشگونی لینا، کاہنوں، یعنی آئندہ کی خبریں بتانے والوں کے پاس جانا، ان سب کاموں کو صحیح احادیث میں شرک قرار دیا گیا ہے۔ تفصیل کے لیے توحید کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابیں، مثلاً تقویۃ الایمان اور کتاب التوحید وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔