وَكَأَيِّن مِّنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ
اور آسمان و زمین میں بہت سی نشانیاں (٩١) ہیں جن کے پاس سے وہ لوگ منہ موڑ کر گزر جاتے ہیں۔
وَ كَاَيِّنْ مِّنْ اٰيَةٍ.....: ’’ كَاَيِّنْ ‘‘ کاف تشبیہ اور ’’ اَيٌّ ‘‘ کا مرکب ہے، معنی اس کا ہے کتنی ہی، مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد ذکر ہونے والی چیز اتنی زیادہ ہے کہ اس کا شمار نہیں ہو سکتا۔ ’’ اٰيَةٍ ‘‘ نشانی سے مراد ایسی عجیب چیز ہے جو توجہ کو اپنی طرف کھینچ لے، اس طرح کہ وہ بھولنے نہ پائے، جیسے کہتے ہیں : ’’فَلَانٌ آيَةٌ فِي الذَّكَاءِ‘‘ یعنی فلاں شخص ذہانت میں آیت ہے، یعنی اتنا ذہین ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ توحید کی کچھ آیات تنزیلیہ ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتریں اور بے شمار کونیہ ہیں جو کائنات کے ذرے ذرے میں بکھری پڑی ہیں۔ ’’ يَمُرُّوْنَ ‘‘ گزرنے سے مراد صرف یہی نہیں کہ چلتے ہوئے گزرتے ہیں، کیونکہ آسمان کی نشانیوں پر گزر کیسے ہو سکتا ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ کتنی ہی بے شمار عجیب و غریب چیزیں ہیں جو روزانہ ان کی نگاہوں کے سامنے آتی ہیں، مگر یہ ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ موٹی سی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس دعوے کے مقابلے میں کہ ’’میں نے ہر چیز پیدا کی ہے، کوئی اور ہے جس نے ایک مکھی یا اس کا پر بھی پیدا کیا ہے تو سامنے لاؤ‘‘ جب کوئی بھی سر نہیں اٹھاتا اور تمھیں بھی یہ مانے بغیر چارہ نہیں تو اس کائنات میں اختیارات کا مالک یا اللہ تعالیٰ سے زبردستی منوالینے والا کوئی دوسرا کیوں بنا لیتے ہو؟ اور ہر چیز کے خالق و مالک کو چھوڑ کر اس کی مخلوق کو کس دلیل سے مشکل کشا سمجھتے اور پکارتے ہو۔ وہ نشانیاں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت جگہ ذکر کی ہیں۔ مثال کے طور پر دو تین مقامات ذکر کیے جاتے ہیں : ﴿ وَ فِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ (21) وَ فِيْ اَنْفُسِكُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ﴾ [ الذاریات : ۲۰، ۲۱ ] ’’اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں اور تمھارے نفسوں میں بھی، تو کیا تم نہیں دیکھتے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۶۴ تا ۱۶۷) کائنات میں پھیلی ہوئی ان بے شمار نشانیوں میں سے کافی نشانیاں ان آیات میں بھی آگئی ہیں، بلکہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہر اختیار ہونے کو بھی کمال طرز سے بیان فرمایا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ روم (۱۷ تا ۲۸) تھوڑی سی زحمت فرما کر ان مقامات کا مطالعہ کر لیجیے۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر پوری طرح غور کرنے والا شخص یقیناً توحید، آخرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تک پہنچ جائے گا، ورنہ کم از کم کائنات کی چیزوں پر غور کرنے سے کسی نہ کسی مفید نتیجے یا ایجاد تک ضرور پہنچ جائے گا جو کم از کم دنیا میں اسے اور دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچائے گی۔ جیسا کہ دیگچی کی بھاپ سے ڈھکنا اٹھنے پر غور نے بھاپ کی قوت کو دریافت کرکے ریل اور کتنی ایجادات کیں۔ بجلی، گیس، لیزر، ایٹم یہ سب اللہ کی آیات کو نیہ پر غور ہی کا نتیجہ ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ اپنی نشانیوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے، اگر کوئی توحید تک نہ پہنچ سکے تو محنت اس کی بھی ضائع نہیں کرتا، کافر کو بھی اس کی سوچ اور فکر کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی انعام دنیوی ہی سہی، ضرور دے دیتا ہے، مگر اصل کامیاب وہ ہے کہ یہ غور و فکر اسے اپنے خالق و مالک کی پہچان، اس اکیلے کی عبادت اور اس کے رسول پر ایمان تک پہنچا دے۔