فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ
پس وہ لوگ تیسری بار عزیز کے پاس پہنچے تو کہا اے عزیز ! ہم اور ہمارے اہل و عیال بہت ہی تکلیف (٧٥) میں ہیں، اور ہم پونجی بھی حقیر سی لائے ہیں، لیکن آپ ہمیں پورا غلہ دیجیے اور ہم پر صدقہ کیجیے بیشک اللہ صدقہ کرنے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے۔
فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَيْهِ.....: ’’ مُزْجٰىةٍ ‘‘ ’’أَزْجٰي يُزْجِيْ إِزْجَاءً‘‘ (ناقص واوی) دفع کرنا، ہٹانا، دھکیلنا، یعنی (غلے کے لیے) ایسی قیمت جسے کوئی خوشی سے قبول نہیں کرتا۔ باپ کے حکم پر تیاری کرکے بیٹے تیسری مرتبہ مصر کے لیے روانہ ہو گئے اور عزیز مصر سے ملے، جس نے ان کے بھائی کو روک رکھا تھا۔ اسے ادب کے ساتھ لقب سے مخاطب کرکے اپنی اور اپنے گھر والوں کی خستہ حالی اور بے چارگی بیان کی کہ ہم پر اور ہمارے گھر والوں پر قحط، خشک سالی، بیٹوں کی جدائی سے والد کی حالت اور کئی مصیبتوں کی وجہ سے سخت تکلیف آ پڑی ہے اور غلے کے لیے ہم صحیح قیمت کا بندوبست نہیں کر سکے، محض اتنی سی پونجی لے کر آئے ہیں جو خوشی سے کوئی قبول نہیں کرتا اور وہ نہ اس قابل ہے کہ آپ اس کے بدلے ہمیں غلہ دیں، اس لیے آپ ہم پر احسان کریں کہ اس قیمت کا جتنا غلہ بنتا ہے وہ پورا دے کر اس سے زیادہ دے دیں، یا قیمت سے چشم پوشی کرکے ایک ایک اونٹ غلہ پورا ہی دے دیں، تو یہ آپ کا ہم پر صدقہ ہو گا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’قحط میں اسباب گھر کا بک گیا، اب کی بار اون اور پنیر اور ایسی چیزیں لائے تھے اناج خریدنے کو، یہ حال سن کر یوسف علیہ السلام کو رحم آیا، اپنے تئیں (اپنے آپ کو) ظاہر کیا اور سارے گھر کو بلوا لیا۔‘‘ (موضح)