يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِن يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ
اے میرے بیٹو ! جاؤ، یوسف اور اس کے بھائی کا پتہ لگاؤ (٧٤) اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ ناامید ہوتے ہیں۔
1۔ يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا.....: ’’ بَنِيْنَ ‘‘ ’’ اِبْنٌ ‘‘ کی جمع ہے، یاء کی طرف مضاف ہوا تو نون گرگیا، یاء کو یائے متکلم میں ادغام کر دیا اور یائے متکلم چونکہ مبنی بر فتحہ ہے اس لیے آخر میں فتحہ دے دیا۔ ’’تَحَسَّسَ‘‘ کا معنی ہے کسی چیز کو باریکی، حکمت اور صبر کے ساتھ بذریعۂ حواس تلاش کرنا۔ (الوسیط) ’’ رَوْحِ اللّٰهِ ‘‘ ’’رَوْحٌ‘‘ کا اصل معنی سانس لینا ہے، کہا جاتا ہے ’’أَرَاحَ الْإِنْسَانُ ‘‘ ’’انسان نے سانس لیا۔‘‘(مفردات) مراد اللہ کی طرف سے کشادگی و رحمت ہے، گلا گھٹ جانے اور سانس بند ہونے کے بعد سانس آنے میں جو راحت ولذت ہے وہ اللہ کی رحمت کا ایک نمونہ ہے، یعنی جاؤ اور اس بھائی کے ساتھ مل کر جو وہاں رہ گیا ہے، یوسف اور اس کے بھائی کی تلاش کی پوری کوشش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو۔ 2۔ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ : جو اس کی قدرت کا صحیح علم نہیں رکھتے، اس کے برعکس مومن کو خواہ کیسے ہی حوصلہ شکن اور مایوس کن حالات پیش آئیں وہ کبھی اپنے مالک کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کافر کی صفت ہے، مومن کی نہیں۔ یہ نہیں کہ مایوس ہو جانے والا کافر اور مرتد ہو جاتا ہے، بلکہ جس طرح جھوٹ منافق کی ایک صفت ہے، مومن کی نہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ﴾ [ النحل : ۱۰۵ ] ’’جھوٹ تو وہی لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے۔‘‘ مگر جھوٹ سے انسان کا کفر اس کفر سے کم تر ہے جو اسے ایمان سے خارج کرکے مرتد بنا دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی رحمت سے مایوسی کافر کی ایک صفت ہے۔