سورة یوسف - آیت 77

قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

انہوں نے کہا، اگر اس نے چوری کی ہے تو اس کے پہلے اس کے ایک بھائی نے بھی چوری (٦٥) کی تھی، یوسف نے ان کی اس کذب بیانی کو اپنے دل میں ہی چھپائے رکھا اور اس کا اثر اپنے اوپر ظاہر نہیں ہونے دیا، اور دل میں کہا، تم کتنے برے لوگ ہو اور جو جھوٹ تم بول رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ : ان کا یہ اشارہ یوسف علیہ السلام کی طرف تھا، پہلے کہہ چکے تھے : ﴿ مَا كُنَّا سٰرِقِيْنَ ﴾ کہ ہم کبھی چور نہیں تھے، لیکن اب جو دیکھا کہ چھوٹے بھائی کے پاس سے چوری کا مال نکل آیا ہے تو اپنی خفت مٹانے اور اپنی پاک بازی ظاہر کرنے کے لیے فوراً اپنے آپ کو اس بھائی سے الگ کر لیا اور اس کے جرم کو بہانہ بنا کر اس کے بھائی پر بھی چوری کی جھوٹی تہمت لگا دی۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے گم ہو جانے کے بعد اس بھائی کے ساتھ یہ بھائی کیا سلوک کرتے رہے ہوں گے؟ یہاں مفسرین نے اسرائیلی روایات سے بچپن میں یوسف علیہ السلام کی چوری کے کچھ واقعات لکھے ہیں، جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ذکر نہیں اور جن سے یوسف علیہ السلام بالکل پاک ہیں، پھر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے کہنے پر یوسف علیہ السلام کی چوری کے واقعات کی تلاش تو تب کی جائے جب برادران یوسف نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، باپ کے پاس جھوٹ بولنے سے لے کر یہاں اپنے تمام بھائیوں کی قسم دے کر کہ ہم میں سے کبھی کوئی چور نہیں رہا، فوراً ہی مدت سے گم شدہ بھائی پر بھی چوری کا بہتان لگا دیا اور ہمارے بعض مفسرین کو فکر ہے کہ ان بھائیوں کے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے یوسف علیہ السلام کی کوئی نہ کوئی چوری ضرور ڈھونڈ نکالی جائے۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] فَاَسَرَّهَا يُوْسُفُ فِيْ نَفْسِهٖ وَ لَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ: کیونکہ اگر ظاہر کرتے تو وہ سمجھ لیتے کہ یہی یوسف ہے اور ابھی یہ راز کھولنے کا وقت نہ آیا تھا۔ اتنے اونچے مقام پر ہونے کے باوجود اتنی تلخ تہمت کو دل میں چھپا کر صبر کرنا یوسف علیہ السلام ہی کا حوصلہ ہے۔ قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا : یعنی یوسف نے چوری کی ہو یا نہ کی ہو مگر تمھارے چور ہونے میں کوئی شبہ نہیں، کیونکہ تم نے اسے باپ سے چرا کر کنویں میں پھینک دیا۔ مزید یہ غضب ڈھا رہے ہو کہ الٹا اپنے آپ کو پاک باز اور یوسف کو چور بتاتے ہو؟ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ : یعنی تم جو یوسف پر چوری کا الزام لگا رہے ہو اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، تم جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکا دے سکتے ہو مگر اللہ تعالیٰ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔