فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ
یوسف نے اپنے بھائی (بنیامین) کے تھیلے سے پہلے ان کے تھیلوں میں تلاش کرنا شروع (٦٤) کیا پھر اپنے بھائی کے تھیلے سے پیالہ نکال لیا، اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی، وہ شاہ مصر کے قانون کے مطابق اپنے بھائی کو نہیں لے سکتے تھے، سوائے اس کے کہ اللہ ایسا ہی چاہے، ہم جسے چاہتے ہیں کئی درجے بلند کرتے ہیں، اور ہر جاننے والے کے اوپر اس سے بڑا جاننے والا ہے۔
1۔ فَبَدَاَ بِاَوْعِيَتِهِمْ.....: یعنی پیمانے کی گم شدگی کا اعلان کرنے والے نے (اللہ کی تدبیر کے مطابق) اتفاق سے پہلے دوسرے بھائیوں کی بوریوں کی تلاشی لی اور آخر میں اس (یوسف) کے بھائی کے سامان کی تلاشی لی تو اس میں سے پیمانہ نظر آگیا جو اس تلاشی لینے والے نے نکال لیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یوسف کے لیے یہ تدبیرہم نے کی، بادشاہِ مصر کے قانون کی رو سے وہ کسی طرح اپنے بھائی کو نہیں رکھ سکتے تھے، مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ خود بھائیوں کے ہاں رائج قانون کے مطابق جو انھوں نے خود بتایا، ان کے لیے بھائی کو یوسف علیہ السلام کے پاس چھوڑے بغیر کوئی چارہ نہ رہا۔ 2۔ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ : یعنی ہم جسے چاہتے ہیں علم عطا فرما کر اس کے درجے بلند کرتے ہیں، جیسے دوسرے بھائیوں کے مقابلے میں یوسف علیہ السلام کے درجے بلند کیے۔ 3۔ وَ فَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ : یعنی ہر جاننے والے سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ اس لیے کوئی شخص اس غرور میں مبتلا نہ ہو کہ مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں، اللہ تعالیٰ کو موسیٰ علیہ السلام کے منہ سے بے ساختہ نکلنے والا یہ لفظ بھی پسند نہ آیا، فرمایا، کیوں نہیں ہمارا بندہ خضر تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ غرض ہر عالم سے بڑا عالم موجود ہے، یہاں تک کہ تمام جاننے والوں کے اوپر وہ ذات پاک ہے جو حاضر و غائب ہر چیز کو پوری طرح جاننے والی ہے اور اس سے کوئی بات مخفی نہیں۔