وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ
اور یعقوب نے کہا، میرے بیٹو ! تم سب ایک دروازے سے نہ داخل ہونا (٥٩)، بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا، اور اللہ کی طرف سے کسی مقدر حکم کو میں تم سے نہیں ٹال سکتا ہوں، ہر حکم اور فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو صرف اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
1۔ وَ قَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا.....: نہ تو آیت کے الفاظ میں اس چیز کی وضاحت ہے اور نہ کسی صحیح حدیث ہی سے اس کا پتا چلتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم کیوں دیا کہ وہ ایک دروازے سے نہیں بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ صحرا کے پر وردہ تنومند گیارہ نوجوان ایک ہی دروازے سے اکٹھے گزریں گے تو ان کی پڑتال زیادہ ہو گی۔ انھیں رہزنوں کا گروہ بھی سمجھا جا سکتا ہے، اگر شک یا حسد کی بنا پر گرفتار ہوئے تو عزیزِ مصر تک ایک بھی نہیں پہنچ سکے گا، پھر گرفتار شدگان کی رہائی کی جدوجہد اجنبی وطن میں کون کرے گا، غرض کئی وجہیں ہو سکتی ہیں، مگر اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کو اپنے صحت مند، قوی، جوان اور خوب صورت بیٹوں کے اکٹھے داخل ہونے پر نظرِ بد لگنے کا خطرہ تھا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ ٹوک (نظر بد) سے بچنے کا طریقہ بتایا اور توکل اللہ پر کیا، ٹوک لگنی غلط نہیں اور نظر بد سے بچاؤ کرنا درست ہے۔‘‘ (موضح) ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ سَبَقَتْهُ الْعَيْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوْا)) [ مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقي : ۲۱۸۸ ]’’نظر لگنا ثابت شدہ بات ہے اور اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے نکل سکتی تو نظر اس سے آگے نکل جاتی اور جب تم سے غسل کے لیے کہا جائے تو غسل کرو۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہت سے لوگوں کو نظر بد سے نقصان کا پہنچنا ثابت ہے۔ دراصل نظر لگانے والے کی آنکھ سے کوئی ایسی تاثیر رکھنے والی شعاع نکلتی ہے جو نشانہ بننے والے کو نقصان پہنچاتی ہے، جیسا کہ اب لیزر (شعاع) سے پتھر بھی توڑ دیا جاتا ہے۔ یہ حسد کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے اور اپنے پیاروں کو بھی لگ جاتی ہے، کسی کی آنکھ میں یہ تاثیر زیادہ ہوتی ہے کسی میں کم۔ بچوں پر یہ زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہدایت تو یہ دی ہے کہ کوئی چیز اچھی لگے تو اس کے لیے برکت کی دعا کرے، مثلاً : ((تَبَارَكَ اللّٰهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ فِيْهِ ))یا اپنی زبان میں کہہ دے ’’یا اللہ! اس میں برکت فرما۔‘‘ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ کوئی اپنے خوب صورت باغ وغیرہ میں داخل ہو تو یہ کہے : ﴿ مَا شَآءَ اللّٰهُ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ﴾ [ الکھف : ۳۹ ] اس آیت سے یہی الفاظ اپنی ہر پیاری چیز پر پڑھنے کی ترغیب بھی ملتی ہے، اس سے وہ چیز نظربد سے محفوظ رہے گی۔ اگر نظر لگ جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے دور کرنے کے دو طریقے ثابت ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اگر معلوم ہو جائے کہ کس کی نظر لگی ہے تو اس سے غسل کروا کر وہ پانی نظر کے مریض پر ڈالا جائے، جیسا کہ اوپر صحیح مسلم کی حدیث میں گزرا، یا کم از کم اس کا چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں کہنیاں، دونوں گھٹنے، پیروں کی انگلیاں اور تہ بند کے اندر کا حصہ کسی برتن میں دھو کر وہ پانی مریض پر ڈالا جائے (تو وہ تندرست ہو جائے گا)۔ [ الموطأ، العین، باب الوضوء من العین : ۲ ] دوسرا طریقہ توحید پر مبنی دم ہے۔ عوف بن مالک راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا بَأْسَ بِالرُّقٰي مَا لَمْ يَكُنْ فِيْهِ شِرْكٌ)) [ مسلم، السلام، باب لا بأس بالرقٰی ....: ۲۲۰۰ ] ’’دموں میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ وہ شرک نہ ہوں۔‘‘ مشرک صوفیوں اور گدی نشینوں کے بجائے خود ہی مسنون دم کر لیا کریں، یہاں چند مسنون دم ضرورت اور فائدے کے لیے نقل کیے جاتے ہیں : (1) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن و حسین رضی اللہ عنھما کو پناہ دلواتے (دم کرتے) اور فرماتے : ’’تم دونوں کا باپ (ابراہیم علیہ السلام ) اسماعیل اور اسحاق( علیھما السلام ) کو ان کلمات کے ساتھ پناہ دلواتا (دم کرتا) تھا : ((أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ)) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب : ۳۳۷۱ ] ’’میں پناہ طلب کرتا ہوں اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ ہر شیطان اور زہریلے جانور سے اور ہر اس آنکھ سے جو نظر لگانے والی ہے۔‘‘ ابوداؤد (۴۷۳۷) اور ترمذی (۲۰۶۰) میں شروع کے لفظ یہ ہیں : (( أُعِيْذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ )) یعنی میں تم دونوں کو دم کرتا ہوں۔ اگر ایک کو دم کرے تو ’’ أُعِيْذُكَ ‘‘ کہہ لے۔ (2) ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، کہا : ’’اے محمد! آپ بیمار ہو گئے ہیں؟‘‘ کہا : ’’ہاں!‘‘ تو انھوں نے کہا : (( بِسْمِ اللّٰهِ أَرْقِيْكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيْكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰهُ يَشْفِيْكَ بِسْمِ اللّٰهِ أَرْقِيْكَ)) [ مسلم، باب الطب والمرض والرقٰی : ۲۱۸۶ ] ’’میں اللہ ہی کے نام کے ساتھ تجھے دم کرتا ہوں ہر اس چیز سے جو تجھے تکلیف دے رہی ہے اور ہر حسد کرنے والے نفس یا آنکھ کے شر سے، اللہ تجھے شفا دے۔ اللہ ہی کے نام سے میں تجھے دم کرتا ہوں۔‘‘ مسند احمد (۵؍۳۲۳، ح : ۲۲۸۲۶) میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار تھا، پچھلے پہر جبریل علیہ السلام نے دم کیا، شام کو آپ بہترین حالت میں ہو گئے۔ (3) آسمان سے اترنے والی تمام کتابوں میں سے سورۂ فاتحہ سب سے عظیم سورت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے، ایک قبیلے کے سردار کو (جنھوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے قافلے کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا تھا) سانپ نے ڈس لیا، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے سورۂ فاتحہ پڑھ کر اسے دم کیا، وہ بالکل ٹھیک ہو گیا تو صحابہ نے ان سے طے کی ہوئی تیس بکریاں وصول کیں۔ [بخاری، الإجارۃ، باب ما یعطی في الرقیۃ علی أحیاء العرب....: ۲۲۷۶] ابوداؤد میں ہے کہ خارجہ بن صلت کے چچا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر مسلمان ہو گئے، واپسی پر ان کا گزر ایک قوم پر ہوا، جہاں ایک پاگل لوہے کی زنجیر کے ساتھ بندھا ہوا تھا، انھوں نے ان سے دم کی درخواست کی تو انھوں نے صرف سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ صبح و شام تین دن سورۂ فاتحہ پڑھ کر جمع شدہ تھوک اس پر پھینکتے رہے تو وہ تندرست ہو گیا اور ایسا گویا اسے رسیوں سے کھول دیا گیا ہو، تو انھوں نے ان کو سو بکریاں دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُلْ فَلَعَمْرِيْ مَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ)) [أبوداؤد، الطب، باب کیف الرقی : ۳۹۰۱ ] ’’کھا لو، میری عمر کی قسم! لوگ تو باطل دم کے ساتھ کھاتے ہیں، تم نے حق دم کے ساتھ کھایا ہے۔‘‘ اس لیے ہر بیماری، نظر ہو یا کوئی اور سورۂ فاتحہ جیسا عظیم دم موجود ہونے کی صورت میں اگر کوئی مشرکوں بدعتیوں کے پاس جائے تو اس پر افسوس ہے۔ (4) سورۂ فلق اور سورۂ ناس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : (( يَا عُقْبَةُ ! تَعَوَّذْ بِهِمَا فَمَا تَعَوَّذَ مُتَعَوِّذٌ بِمِثْلِهِمَا)) [ أبوداؤد، الوتر، باب فی المعوذتین : ۱۴۶۳ ] ’’اے عقبہ! ان دونوں کے ساتھ پناہ پکڑ، کیونکہ کسی پناہ پکڑنے والے نے ان جیسی سورتوں کے ساتھ پناہ نہیں پکڑی۔‘‘ کتبِ احادیث میں اور بھی دم موجود ہیں جو حصن المسلم اور ادعیہ و اذکار کی دوسری کتابوں میں موجود ہیں۔ 2۔ وَ مَا اُغْنِيْ عَنْكُمْ ....: اور میں اللہ کی طرف سے آنے والی کوئی چیز تم سے ہٹا نہیں سکتا، بلکہ اس نے جو کچھ تمھاری تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ہو کر رہے گا، مگر چونکہ آدمی کا فرض ہے کہ جہاں تک ممکن ہو خرابی سے بچنے کی تدبیر کرے، اگرچہ اصل بھروسا تدبیر پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر ہونا چاہیے، کیونکہ اسباب بھی تب ہی کام آتے ہیں جب اللہ تعالیٰ چاہے۔ سو تدبیر کرنا بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگنے کا نام ہے۔ ’’الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا‘‘ تدبیر ہے اور ’’میں اللہ سے آنے والی کوئی چیز تم سے ہٹا نہیں سکتا‘‘ تقدیر پر ایمان ہے، جس کا نتیجہ اسی پر توکل ہے۔ 3۔ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ....: یہاں حکم سے مراد کونی اور قدری حکم ہے جس پر یہ کائنات چل رہی ہے، اس میں بندے کا کچھ اختیار نہیں۔ ’’ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ‘‘ یعنی میری طرح تم پر اور سب لوگوں پر بھی لازم ہے کہ صرف اسی پر بھروسا کریں، اپنی تدبیر پر غرور نہ کریں، اگرچہ شرعی حکم بھی اللہ ہی کا ماننا لازم ہے مگر اس میں اللہ تعالیٰ نے امتحان کے لیے بندے کو کچھ اختیار دیا ہے جس پر باز پرس ہو گی۔ 4۔ پہلی دفعہ یعقوب علیہ السلام نے انھیں مختلف دروازوں سے داخل ہونے کا حکم نہیں دیا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس وقت قحط کی وجہ سے تمام بھائیوں کی صحت اچھی نہیں ہو گی، اب وہ بہترین صحت کے ساتھ تھے اور مزید یہ کہ وہ چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جا رہے تھے جو یوسف علیہ السلام کے بعد یعقوب علیہ السلام کو سب سے زیادہ پیارے اور یوسف علیہ السلام کی ماں کے بطن سے تھے۔