سورة یوسف - آیت 66

قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَن يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یعقوب نے کہا میں اسے تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جانے دوں گا، یہاں تک کہ تم مجھ سے اللہ کے نام کا پختہ عہد کرو کہ تم اسے ضرور میرے پاس واپس لاؤ گے (٥٨) الا یہ کہ تم سب کو ہی گھیر لیا جائے، پس جب سب نے ان سے پختہ عہد کرلیا تو کہا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس کا ضامن اللہ ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌ: ’’ وَكِيْلٌ ‘‘ بروزن ’’فَعِيْلٌ‘‘ بمعنی مفعول ہے، یعنی ’’مَوْكُوْلٌ اِلَيْهِ‘‘ جس کے سپرد اپنا کام کر دیا جائے۔ یعقوب علیہ السلام نے ایک طرف بیٹوں سے پختہ عہد، یعنی قسمیں لے لیں اور ظاہری اسباب سے پورا وثوق حاصل کر لیا اور دوسری طرف معاملہ اللہ کے سپرد کر کے بھروسا اسی پر رکھا کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اسے پورا کرنا اسی کے اختیار میں ہے اور جو جان بوجھ کر بدعہدی یا خیانت کرے گا وہ خود اسے سزا دے گا، اللہ پر توکل کا صحیح مطلب بھی یہی ہے۔