سورة یوسف - آیت 56

وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۚ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اس طرح ہم نے یوسف کو سرزمین مصر کا اقتدار دے دیا (٥٠) تاکہ اس میں جہاں چاہیں رہیں، ہم اپنی رحمت جسے چاہتے ہیں دیتے ہیں اور ہم نیک عمل کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ: اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کو سلطنتِ مصر میں ہر قسم کے اختیارات حاصل تھے اور وہ ایک کافر بادشاہ کے وزیر و ملازم نہیں تھے، ہو سکتا ہے کہ بادشاہ نے از خود ہی زمام حکومت ان کے سپرد کر دی ہو۔ ایک مشرک بادشاہ اور ایک نبی کا اتنا قرب ممکن ہی نہیں، اگر بادشاہ کو کافر فرض کیا جائے تو ممکن ہی نہیں کہ انسانوں میں سے اللہ کا سب سے بڑا دشمن (کافر بادشاہ) اللہ کے اس وقت کے سب سے بڑے دوست (نبی) سے اتنی دلی محبت رکھ کر نباہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فیصلہ فرمایا ہے : ﴿ اِنَّ الْكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا ﴾ [ النساء : ۱۰۱ ] ’’بے شک کافر لوگ ہمیشہ سے تمھارے کھلے دشمن ہیں۔‘‘ سورۂ کافرون پر نظر ڈال لیں اور سورۂ مجادلہ کی آخری آیت پر بھی۔ سورۂ ممتحنہ کی آیت (۴) میں یوسف علیہ السلام کے جد امجد ابراہیم علیہ السلام نے تو مسلم و کافر کے درمیان واضح ابدی بغض و عداوت کی صراحت فرما دی ہے۔ کافر بادشاہ اور نبی کے درمیان عداوت و محبت کا منظر دیکھنا ہو تو موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کو دیکھ لیں، حالانکہ موسیٰ علیہ السلام نے اس گھر میں بیٹے کی حیثیت سے پرورش پائی تھی۔ بادشاہ تو دور کی بات ہے کافر سرداران قوم ایک لمحہ انبیاء اور مسلمانوں کو برداشت نہیں کر سکے اور نہ کر سکتے ہیں۔ سوائے ایسے مسلمانوں کے جو ان کے ہر عملِ بد پر ان کی مدد کریں، یا کم از کم خاموش رہیں۔ اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام سے اس کی توقع وہی شخص کر سکتا ہے جو یوسف علیہ السلام کا خواتین مصر کے مطالبے کے مقابلے میں سال ہا سال کی قید گوارا کرنا اور بادشاہ کے بلانے کے باوجود تحقیق کے بغیر قید خانے سے نکلنے سے انکار نہ جانتا ہو۔ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَآءُ ....: لفظ ’’ يَتَبَوَّاُ ‘‘ سے یوسف علیہ السلام کو مصر میں حاصل ہونے والا اختیار و اقتدار سمجھنے کے لیے اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں جس میں ذکر ہے کہ جنتی جنت میں داخلے کے بعد کیا کہیں گے : ﴿ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَآءُ ﴾ [ الزمر : ۷۴ ] ’’اور وہ کہیں گے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنا دیا کہ ہم (اس) جنت میں سے جہاں چاہیں جگہ بنا لیں۔‘‘ جنت جیسا اختیار نہ سہی مگر اس سے اس لفظ کی وسعت کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ عزیز مصر کی بیوی سے یوسف علیہ السلام کا نکاح ہو گیا تھا، مگر محدثین کے نزدیک یہ روایات قابل اعتبار نہیں۔ وَ لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ (56) وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ ....: یعنی دنیا و آخرت دونوں میں انھیں اپنے نیک اعمال کا بدلہ ملتا ہے، اس آیت کے سلسلے میں شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ جواب ہوا ان کے سوالوں کا کہ اولاد ابراہیم اس طرح شام سے مصر آئی اور بیان ہوا کہ بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کو گھر سے دور پھینکا، تاکہ ذلیل ہو، اللہ نے زیادہ عزت دی اور ملک پر زیادہ اختیار دیا، ویسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا۔‘‘ (موضح)