إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ
بے شک صفا و مروہ (234) اللہ کے مقرر کردہ نشانات ہیں، اس لئے جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے، اس کے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ ان دونوں کے درمیان طواف کرے، اور جو شخص (اپنی خوشی سے) کوئی کار خیر کرے گا تو اللہ اس کا اچھا بدلہ دینے والا اور بڑا جاننے والا ہے
1۔ ”يَطَّوَّفَ“یہ باب تفعل سے ہے، ”طَافَ يَطُوْفُ“ کا معنی طواف کرنا، چکر لگانا ہے، جب باب تفعل میں حروف زیادہ ہوئے تو اس کا معنی ’’خوب طواف کرے‘‘ ہو گیا۔ ”شَعَآىِٕرِ“یہ”شَعِيْرَةٌ“ کی جمع ہے جس کا معنی نشانی ہے۔ بعض لوگوں نے صفا اور مروہ کو جاہلیت کے بتوں کی نشانی سمجھ کر ان کے طواف کو گناہ سمجھا، تو اس پر فرمایا کہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ 2۔صفا اور مروہ کعبہ کے قریب دو چھوٹی پہاڑیوں کے نام ہیں ۔ ان کے درمیان سعی کرنا (دوڑنا) ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج اور عمرہ کے مناسک (یعنی احکام) میں شامل تھا، مگر زمانۂ جاہلیت میں مشرکین نے حج اور عمرہ کے مناسک میں کئی شرکیہ رسوم شامل کر لی تھیں ، حتیٰ کہ انھوں نے صفا اور مروہ پر دو بت نصب کر رکھے تھے۔ ایک کا نام ’’اساف‘‘ اور دوسرے کا ’’نائلہ‘‘ تھا۔ ان مشرکین میں سے بعض وہ تھے جو جاہلیت میں ان کے درمیان سعی کرتے اور ان بتوں کا استلام بھی کرتے، یعنی انھیں بوسہ بھی دیتے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صفا و مروہ (کی سعی) کو جاہلیت کا کام سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو ہم ان کی سعی سے رک گئے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ تعالٰی : ﴿ إن الصفا والمروۃ ....﴾ : ۴۴۹۶] اور ان مشرکین میں سے بعض وہ تھے جو جاہلیت ہی میں صفا و مروہ کی سعی کے بجائے ’’منات‘‘ نامی بت کا طواف کرتے تھے اور مکہ پہنچ کر صفا و مروہ کے طواف کو گناہ سمجھتے تھے، ان کے رد میں بھی یہ آیت نازل ہوئی۔ سعی کے ضروری ہونے پر تو مسلمان متفق تھے، تاہم آیت کے ظاہری الفاظ سے بعض لوگوں کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ سعی نہ بھی کی جائے تو کوئی حرج نہیں ، چنانچہ عروہ بن زبیر رحمة اللہ علیہ نے اپنی خالہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے سامنے اس شبہ کا اظہار کیا، تو عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ اگر آیت کا مفہوم یہی ہوتا توقرآن میں یوں ہوتا : ”اَنْ لاَّ يَطَّوَّفَ بِهِمَا“ یعنی طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں ۔ پھر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہانے مزید وضاحت کے لیے فرمایا کہ عرب کے بعض قبائل (ازد، غسان) ’’ مناة الطاغية ‘‘ بت کی پوجا کرتے تھے۔ یہ بت انھوں نے مُشلَّل پہاڑی پر نصب کر رکھا تھا۔ یہ لوگ حج کے لیے جاتے تو اس بت کا نام لے کر لبیک کہتے اور اس کا طواف کرتے۔ مکہ میں پہنچ کر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے، مسلمان ہونے کے بعد اس بارے میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ [بخاری، الحج، باب وجوب الصفا والمروۃ .... : ۱۶۴۳۔ مسلم : ۱۲۷۷] یعنی ان لوگوں نے صفا اور مروہ کے درمیان طواف کو گناہ خیال کیا تھا، اس بنا پر قرآن نے ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا﴾ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ، ورنہ جہاں تک خود سعی کا تعلق ہے تو اس کے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ یہ سعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مقرر فرما دی ہے، اب کسی کو اس کے ترک کرنے کا اختیار نہیں ، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (( اِسْعَوْا اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَیْکُمُ السَّعْیَ)) [ أحمد : 6؍421، ۴۲۲، ح : ۲۷۴۳۵] ’’سعی کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کر دی ہے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا : ((لِتَاْخُذُوْا مَنَاسِکَکُمْ)) [ مسلم، الحج، باب استحباب رمی....: ۱۲۹۷] ’’مجھ سے حج کے مناسک (یعنی احکام) سیکھ لو۔‘‘ ان میں سعی بھی داخل ہے۔