قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
بادشاہ نے پوچھا، تم عورتوں کا کیا واقعہ (٤٥) ہے، جب تم نے یوسف کو گناہ پر اکسایا تھا؟ انہوں نے کہا، بے عیب ہے اللہ کی ذات، ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں پائی، عزیز کی بیوی نے کہا، اب حق کھل کر سامنے آگیا میں نے اسے گناہ پر اکسایا تھا اور وہ بالکل سچا ہے۔
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ.....: بادشاہ نے ان تمام خواتین کو طلب کر لیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران میں وہ معاملے کی پوری تحقیق کر چکا تھا اور یوسف کی بے گناہی اور عورتوں کے فریب سے آگاہ ہو چکا تھا، اس لیے اس نے یہ نہیں کہا کہ تمھارا قصور تھا یا یوسف کا، بلکہ ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ جب تم نے یوسف علیہ السلام کو اس کے نفس سے پھسلایا تھا، تمھارے اس معاملے کی حقیقت کیا تھی؟ یعنی آخر اس کا کیا جرم تھا جس کی وجہ سے اسے اتنی دیر قید خانے میں رکھا گیا؟ وہ سب بیک زبان بولیں : ’’اللہ کی پناہ! ہم نے اس پر کوئی برائی معلوم نہیں کی۔‘‘ ہاتھ کاٹنے والیوں نے جب یوسف علیہ السلام کو کسی بھی قسم کی برائی سے پاک قرار دیا تو ہاتھ نہ کاٹنے والی عزیز مصر کی بیوی کو بھی بولنا پڑا، اس نے کہا، اب تو حق بالکل ظاہر ہو گیا، میں نے ہی اسے اس کے نفس سے پھسلایا تھا اور یقیناً وہ سچوں سے ہے۔