ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ
پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں کے لیے خوب بارش ہوگی، اور جس میں لوگ خوب رس نکالیں گے۔
1۔ ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ ....: ’’ يُغَاثُ ‘‘ ’’غَيْثٌ‘‘ سے بھی ہو سکتا ہے اور ’’غَوْثٌ‘‘ سے بھی۔ ’’غَيْثٌ‘‘ سے ہو تو بارش برسائے جائیں گے اور ’’غَوْثٌ‘‘ سے ہو تو مدد کیے جائیں گے۔ ’’ يَعْصِرُوْنَ ‘‘ ’’نچوڑیں گے‘‘ یعنی اس سال وہ پھل جن سے رس نکلتا ہے، مثلاً انگور، لیموں وغیرہ اور وہ بیج جن سے تیل نکلتا ہے، مثلاً زیتون، سرسوں وغیرہ کثرت سے پیدا ہوں گے اور جانور بھی اچھا چارا ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دیں گے۔ اس بنا پر بعض نے ’’ يَعْصِرُوْنَ ‘‘ کے معنی ’’يَحْلِبُوْنَ‘‘ (دودھ دوہیں گے) کیے ہیں۔ یہ بات کہ قحط کے سات سالوں کے بعد ایک خوش حالی کا سال آئے گا، خواب سے زائد بتائی، یا تو وحی الٰہی کے ذریعے سے، یا خشک سالوں کی گنتی سات ہونے سے استدلال فرمایا کہ وہ سات تبھی رہتے ہیں جب ان کے بعد کم از کم ایک خوش حالی کا سال ہو اور اس سے بھی کہ اللہ کی رحمت کا تقاضا بھی شدت کے بعد آسانی کا ہے۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ کبھی کافر کا خواب بھی سچا ہوتا ہے، اگربادشاہ کا کافر ہونا ثابت ہو۔ اس سے پہلے دونوں قیدی جو مشرک تھے، ان کے خواب بھی سچے نکلے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ’’ كِتَابُ التَّعْبِيْرِ ‘‘ میں اس سے یہ استدلال فرمایا ہے : ’’ بَابُ رُؤْيَا أَهْلِ السُّجُوْنِ وَالْفَسَادِ وَالشِّرْكِ ‘‘ ’’قیدیوں اور اہل شرک و فساد کے خواب کا بیان۔‘‘