وَقَالَ الَّذِي نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ أَنَا أُنَبِّئُكُم بِتَأْوِيلِهِ فَأَرْسِلُونِ
دونوں نوجوان میں سے جس کی نجات ہوگئی تھی، اس کو ایک زمانے کے بعد یوسف کی بات یاد آئی (٤١) اس نے کہا کہ میں آپ لوگوں کو اس کی تعبیر بتاؤں گا، آپ لوگ (مجھے یوسف کے پاس) جانے دیجیے۔
1۔ وَ قَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْهُمَا وَ ادَّكَرَ ....: ’’ ادَّكَرَ ‘‘ ’’ذَكَرَ يَذْكُرُ‘‘ (ن) سے باب افتعال ہے، اصل میں ’’اِذْتَكَرَ‘‘ تھا، پھر افتعال کی تاء کو دال اور اس کے ساتھ ہی ذال کو بھی دال میں بدل کر ’’ادَّكَرَ ‘‘ کر دیا، بمعنی یاد کیا۔ ’’اُمَّةٍ ‘‘ کے کئی معانی ہیں جن میں سے ایک معنی مدت بھی ہے، تنوین تعظیم کے لیے ہے، یعنی اس وقت ساقی کو جس نے یوسف علیہ السلام کی تعبیر کے بعد قید سے رہائی پائی تھی اور یوسف علیہ السلام کے کہنے کے باوجود سرے سے ان کی بات بھول چکا تھا، اتنی لمبی مدت کے بعد یوسف علیہ السلام اور ان کی علم تعبیر میں مہارت یاد آئی اور اس نے کہا میں تمھیں اس کی تعبیر بتاتا ہوں، آپ مجھے بھیجیں، چنانچہ اسے اجازت مل گئی اور وہ یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچا۔ 2۔ اس ساقی کے رویے سے سرکاری و درباری کارندوں کے کردار پر بھی بڑی روشنی پڑتی ہے کہ وہ ہمیشہ کریڈٹ کے چکر میں رہتے ہیں۔ (الا ماشاء اللہ) اس کا یہ کہنا حقیقت سے کس قدر دور تھا کہ میں تمھیں تعبیر بتاتا ہوں، اس کا حق تھا کہ اپنے محسن کا ذکر کرتا، انھیں عزت سے بلواتا اور بادشاہ سے درخواست کرتا کہ ان سے تعبیر پوچھیں، مگر وہ اس چکر ہی سے نہیں نکلا کہ ’’میں تمھیں بتاتا ہوں۔‘‘ کتنے ہی سرکاری افسر اور سرمایہ دار ہیں جو دوسروں کی علمی محنت کو اپنے نام لگا کر ڈگریاں حاصل کرتے یا اپنی علمی شان کا سکہ جماتے ہیں، مگر یہ سب بے چارے اسی مرض کے مریض ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بعض اہل کتاب کا بتایا ہے : ﴿ يُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ﴾ [ آل عمران : ۱۸۸ ] ’’اور وہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان (کاموں) پر کی جائے جو انھوں نے نہیں کیے، پس تو انھیں عذاب سے بچ نکلنے میں کامیاب ہر گز خیال نہ کر اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘