فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ
جب عورت کو ان کی سازش کی خبر ہوئی تو اس نے انہیں دعوت (٢٩) دی اور ان کے لیے ایک مجلس تیار کی اور ان میں سے ہر ایک کو ایک چھری دے دی، اور یوسف سے کہا، تم ان کے سامنے آؤ، پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو ان سے حد درجہ مرعوب ہوگئیں اور اپنے ہاتھ زخمی کرلیے اور کہنے لگیں، بے عیب ذات اللہ کی، یہ کوئی معمولی انسان نہیں ہے، یہ تو یقینا کوئی اونچے مرتبہ کا فرشتہ ہے۔
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَيْهِنَّ.....: اس آیت کی تفسیر اکثر بلکہ تقریباً سبھی مفسرین نے یہ کی ہے اور اس کے لیے جس تاویل کی ضرورت پڑی وہ بھی کرتے گئے ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جب شہر میں اس واقعہ کی شہرت ہوئی تو عورتوں نے طعن و تشنیع اور ملامت کے تیر برسانا شروع کر دیے کہ عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام کو پھسلا رہی ہے اور اس کی اتنی دیوانی ہو گئی ہے جو اس کی حیثیت کے خلاف ہے۔ جب عزیز کی بیوی نے ان کی ملامت کو سنا۔ (قرآن میں لفظ ہے کہ جب اس نے ان کے مکر کو سنا۔ مکر کا سیدھا سا معنی ’’فریب، سازش، خفیہ تدبیر‘‘ ہوتا ہے، مگر ہمارے مفسرین نے اسے درست کرنے کے لیے کہا کہ وہ ظاہر تو ملامت کر رہی تھیں مگر حقیقت میں وہ یوسف کا حسن دیکھنا چاہتی تھیں، ان کے مکر سے مراد یہ ہے) خیر جب اس نے ان کی ملامت کو سنا تو اس نے ان کی ملامت کے جواب میں اپنے فعل کا جواز پیش کرنے اور اپنے بے اختیار ہو جانے کے سبب کا مشاہدہ کروانے کے لیے چند خاص عورتوں کو دعوت دی اور ان کے لیے یہ مجلس آراستہ کی۔ اب جب مجلس جوبن پر تھی، چھریوں سے گوشت اور پھل کاٹے جا رہے تھے، تو یوسف علیہ السلام سے کہا، ان کے سامنے آؤ۔ جب انھوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو ان کے حسن کو دیکھ کر ایسی بے خود ہوئیں کہ انھیں خیال ہی نہ رہا کہ ہم پھل کاٹ رہی ہیں یا اپنے ہاتھ، وہ انھیں دیکھتی ہی رہ گئیں اور چھریاں ان کے ہاتھوں پر چل گئیں، جس سے انھوں نے اپنے ہاتھ بری طرح کاٹ لیے (قَطَّعْنَ باب تفعیل مبالغہ کے لیے ہے) اور محویت میں انھیں درد کا احساس ہی نہیں ہوا اور کہنے لگیں، اللہ کی پناہ یہ کوئی آدمی نہیں، یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے۔ (یعنی حسن میں فرشتہ قرار دیا جس طرح بدصورتی میں شیطان کہا جاتا ہے) عزیز کی بیوی نے کہا کہ پھر یہی ہے وہ جس کے متعلق تم نے مجھے ملامت کی… ۔ عام تفاسیر کا خلاصہ یہ ہے، مگر اصل صورت واقعہ کچھ اور معلوم ہوتی ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام بچے تھے، جب وہ ان کے گھر میں غلام کی حیثیت سے آئے تھے۔ غلام کا خدمت کے لیے اپنے آقا سے تعلق رکھنے والے تمام گھروں میں لین دین یا پیغام وغیرہ پہنچانے کے لیے عام آنا جانا ہوتا ہے۔ کئی سال بعد جب وہ پورے جوان ہوئے تو یہ واقعہ پیش آیا۔ اب آیا یہ ممکن ہے کہ اتنے سالوں تک عزیز مصر کی بیوی کی اتنی قریب ترین سہیلیوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا ہی نہ ہو اور عزیز کی بیوی نے انھیں دکھانے کا اہتمام اب ہی کیا ہو؟ میں نے بیسیوں تفسیریں پڑھیں، بڑے بڑے باریک بین اہل علم جن کے علم و فضل کا یہ عاجز دل سے نہایت معترف ہے اور انھی کا خوشہ چین ہے، وہ اس سوال کے پاس سے خاموشی سے گزر گئے ہیں اور حسن یوسف سے بے خودی ہی کو ہاتھ کٹنے کا باعث قرار دیتے چلے گئے ہیں۔ البتہ چند ایک نے اس کی طرف توجہ کی ہے، انھوں نے اس کا جواب یہ تراشا ہے کہ عزیز مصر کی بیوی ہمیشہ یوسف علیہ السلام کو برقع پہنا کر رکھتی تھی، تاکہ کوئی انھیں دیکھ نہ لے۔ مجھے تعجب ہوا کہ بعض مفسرین نے حسن یوسف کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب وہ مصر کی گلیوں میں چلتے تھے تو ان کے چہرے کے حسن اور نور کا عکس دیواروں پر پڑتا تھا۔ اب کہاں برقع اور کہاں دیواروں پر چہرے کے حسن و نور کا عکس پڑنا۔ ’’ضِدَّانِ مُفْتَرِقَانِ أَيَّ تَفَرُّقٍ ‘‘ سیدھی سی بات ہے کہ یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عزیز مصر کے گھر اسی لیے جگہ دی تھی کہ وہ مشورے کی مجلسوں میں خدمت کرنے والے غلام یا عزیز مصر کے بیٹے کی حیثیت سے شریک ہو کر رموز مملکت سیکھیں، فرمایا : ﴿ وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ ﴾ [ یوسف : ۲۱ ] ’’اور تاکہ ہم اسے باتوں کی اصل حقیقت میں سے کچھ سکھائیں۔‘‘ اس معاشرے میں مردوں اور عورتوں کا بے پردہ مل کر بیٹھنا معمول کی بات تھی، جس طرح آج کل مسلمانوں کی پارلیمنٹ اور دوسرے اداروں اور گھروں کا حال ہو گیا ہے، غیر مسلموں کا حال تو قابل بیان ہی نہیں۔ ایسے حالات میں اتنے سال تک ان خواتین کو کوشش کے باوجود یوسف علیہ السلام کے دیکھنے کا موقع نہ ملنا سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ اصل بات جو صاف نظر آ رہی ہے، یہ تھی کہ جب ان چند عورتوں تک اندر کی یہ خبر کسی طرح پہنچی تو انھوں نے عزیز کی بیوی پر طعن و ملامت کی کہ اس کی نادانی دیکھو کہ اپنے غلام پر فریفتہ ہو چکی ہے اور اب تک کی مسلسل کوشش اور پھسلانے کے باوجود حصول مقصد میں ناکام ہے۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے حسن کا اور کسی کو اپنا دیوانہ بنانے کی چالوں میں مہارت کا دعویٰ بھی کیا کہ ہمارے پاس وہ مکر ہیں کہ کوئی بھی ہمارے مکر و فریب سے بچ کر نہیں جا سکتا، ایک غلام کی کیا مجال ہے۔ ﴿ فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ ﴾ تو جب عزیز مصر کی بیوی نے ان کے مکر و فریب اور چالوں کا دعویٰ سنا تو انھیں دعوت دی کہ تم بھی اپنا ہنر آزما دیکھو، اگر وہ کسی ایک کو بھی دل دے بیٹھا تو میرے لیے بھی وجۂ جواز بن جائے گی۔ باقاعدہ ان کی چال کی تفصیل سن کر ہر عورت کو دعوت کے لوازمات کے ساتھ خصوصاً ایک ایک چھری بھی دی۔ اب یوسف علیہ السلام عزیز کی بیوی کے کہنے پر شہر کی منتخب حسیناؤں کے سامنے آئے تو ان میں سے ہر ایک نے انھیں اپنے حسن اور ناز و انداز سے متاثر کرنے کی کوشش کی۔ جب کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی تو انھوں نے بے بس عاشقوں کا آخری حربہ آزمایا کہ اگر تم نے ہمارا دل توڑا تو ہم خودکشی کر لیں گی۔ یہ ایسا مرحلہ ہوتا ہے کہ آدمی رحم کے جذبے کے ہاتھوں پھنس جاتا ہے۔ کئی لڑکیاں اسی طرح برباد ہوئیں اور کئی لڑکے بھی۔ ضروری نہیں کہ سب عورتوں نے ایسا کیا ہو، بہرحال ان میں سے کچھ نے اپنے ہاتھ بری طرح زخمی کر کے اپنی خودکشی کی دھمکی دی۔ حسن و جمال کے ساتھ عفت و حیا کے اس پیکرنے اس کی بھی پروا نہ کی تو وہ بولیں، اللہ کی پناہ! اس شخص کے سینے میں آدمی کا دل نہیں، یہ تو ایک معزز فرشتہ ہے، جو عشق و حسن کے فتنوں سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا، جسے عشق کے معاملات سے کوئی واسطہ ہی نہیں، اس پر ہماری خود کشی کا بھی کیا اثر؟ ایک فارسی شاعر نے کہا ہے: عاشق نہ شدی محنت الفت نہ کشیدی کس پیش تو از قصۂ ہجراں چہ کشاید ’’نہ تو عاشق ہوا، نہ تو نے عشق کی مصیبت اٹھائی۔ تیرے سامنے کوئی جدائی کا قصہ کھول کر کیا سنائے۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ فرشتوں سے تشبیہ پاک بازی میں دی جاتی ہے، حسن میں نہیں، جس طرح ایک اردو شاعر نے ڈینگ ماری ہے: تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں اس کی کئی دلیلیں آئندہ آیات میں آ رہی ہیں، میں ان کا ترتیب وار ذکر کرتا ہوں : (1) یوسف علیہ السلام نے دعا کی : ﴿ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْ اِلَيْهِ ﴾ [ یوسف : ۳۳ ] ’’اے میرے رب! مجھے قید خانہ اس سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ سب مجھے دعوت دے رہی ہیں۔‘‘ معلوم ہوا وہ عورتیں یوسف علیہ السلام کو دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ دعوت گناہ دینے کے لیے آئی تھیں۔ (2) یوسف علیہ السلام نے مزید دعا کی : ﴿ وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَيْهِنَّ وَ اَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِيْنَ ﴾ [یوسف: ۳۳ ] ’’اور اگر تو مجھ سے ان کے (مکر) فریب کو نہ ہٹائے گا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور جاہلوں سے ہو جاؤں گا۔‘‘ معلوم ہوا وہ سب عورتیں یوسف علیہ السلام کو اپنے مکر و فریب میں پھنسانے کے لیے آئی تھیں نہ کہ صرف جمال یوسف کے دیدار کے لیے۔ (3) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ﴾ [ یوسف : ۳۴ ] ’’ تو اس کے رب نے اس کی دعا قبول فرمائی، اس نے اس (یوسف) سے ان (عورتوں) کا فریب ہٹا دیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے بھی اس دعوت کی کار روائی کو ان سب عورتوں کا مکر و فریب قرار دیا ہے۔ (4) یوسف علیہ السلام نے جب بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتائی اور بادشاہ نے انھیں بلوایا تو یوسف علیہ السلام نے اس کے قاصد سے کہا کہ اپنے مالک کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو : ﴿ مَا بَالُ النِّسْوَةِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَهُنَّ اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِهِنَّ عَلِيْمٌ﴾ [ یوسف : ۵۰ ] ’’ان عورتوں کا کیا حال ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے، یقیناً میرا رب ان کے فریب کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ یہ آیت خصوصاً قابل غور ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ جہاں بھی عورتوں کے مکر کا ذکر ہے مراد صرف عزیز مصر کی بیوی ہے، دوسری عورتیں چونکہ اس کی ساتھی تھیں، اس لیے ان کا ذکر ساتھ آگیا۔ اب اس آیت پر غور کریں، عزیز کی بیوی نے تو ہاتھ کاٹے ہی نہیں تھے، وہ تو دوسری ہی عورتوں نے کاٹے تھے، یوسف علیہ السلام ان کے ہاتھ کاٹنے کو ان کا مکر و فریب قرار دے رہے ہیں۔ (5) بادشاہ نے ان تمام عورتوں کو بلا کر پوچھا : ﴿ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ يُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِهٖ ﴾ [ یوسف : ۵۱ ] ’’تمھارا کیا معاملہ تھا جب تم نے یوسف کو اس کے نفس سے پھسلایا؟‘‘ معلوم ہوا کہ بادشاہ نے بھی ان کے ہاتھ کاٹنے کو یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال سے بے خود ہو کر ہاتھ کاٹنے کے بجائے اسے ان کی سوچی سمجھی پھسلانے کی سازش قرار دیا۔ اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ یہ تفسیر تم نے اپنے پاس سے کی ہے، تو جواب یہ ہے کہ جہاں قرآن وحدیث کی تفسیر کی کوئی نص صریح نہ ہو وہاں قرآن مجید کے عجائبات ونکات قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے۔ ویسے مجھ سے پہلے مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے یہی تفسیر کی ہے، مولانا امین احسن اصلاحی نے (ان کے تفسیر میں منہج کے تفرد سے قطع نظر) یہی تفسیر کی ہے اور تفسیر مواہب الرحمان کے مصنف علامہ امیر علی ملیح آبادی رحمہ اللہ نے دوسری تفسیروں کے ساتھ یہ تفسیر بھی لکھی ہے، ان کے الفاظ ہیں : ’’اور شاید کہ (عزیز کی بیوی نے) ان عورتوں سے اپنی مراد کے لیے استعانت چاہی ہو، اس طرح کہ آنحضرت (یوسف) علیہ السلام نے کہا تھا : ﴿ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّيْ اَحْسَنَ مَثْوَايَ ﴾ یعنی اپنی پرورش کرنے والے عزیز مصر کی جو رو سے بلحاظ مربی ہونے کے یہ کام نہ کریں تو یہ عورتیں طالب ہوں، پھر ان کی تلویث کے بعد کام آسان ہو۔ چنانچہ بعض مفسرین نے قصہ روایت کیا کہ ان عورتوں میں ہر ایک نے زلیخا کی حیلہ گری و اشارہ سے آنحضرت (یوسف) علیہ السلام سے تخلیہ میں یہ خواہش ظاہر کی اور ہر طرح کی زینت و مکر اور لجاجت وحیلہ کا خاتمہ کر دیا تھا اور کلام ما بعد میں اس کی طرف اشارہ بھی نکلتا ہے۔ چنانچہ جب یہ صورت معاملہ نظر آئی تو یوسف علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! قید خانہ مجھے زیادہ پسند ہے، یعنی وہی مجھے منظور ہے﴿ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ﴾ اس کام سے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے بلاتی ہیں۔‘‘ آیت کی یہ تفسیر اور بھی کئی مفسرین نے کی ہو گی مگر مجھے قدیم مفسرین میں سے جن بزرگوں سے یہ تفسیر ملی ہے وہ ہیں سلطان العلماء، شیخ الاسلام عز الدین ابن عبد السلام رحمہ اللہ ، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جس مرض میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے اس مرض کا واقعہ ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا، اذان ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا : ’’ابوبکر غمگین آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہیں پڑھا سکیں گے۔‘‘ آپ نے دوبارہ یہی حکم دیا تو انھوں نے دوبارہ یہی کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ یہی حکم دیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوْسُفَ مُرُوْا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ)) [بخاری، الأذان، باب حد المریض أن یشھد الجماعۃ : ۶۶۴ ] ’’تم یوسف کے ساتھ والیاں ہو، ابوبکر سے کہو نماز پڑھائے۔‘‘ صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت (۶۷۹) میں ہے کہ پہلی دو دفعہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے یہ بات کہی تھی، تیسری بار ان کے کہنے کے مطابق حفصہ رضی اللہ عنھا نے کہی تھی۔ اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن احجر رحمہ اللہ نے ’’ إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوْسُفَ‘‘ كی شرح عام مفسرين كے مطابق كرنے كے بعد آخر ميں لكها ہے : ’’ وَ وَقَعَ فِيْ أَمَالِي ابْنِ عَبْدِ السَّلَامِ أَنَّ النِّسْوَةَ أَتَيْنَ امْرَأَةَ الْعَزِيْزِ يُظْهِرْنَ تَعْنِيْفَهَا وَ مَقْصُوْدُهُنَّ فِي الْبَاطِنِ أَنْ يَدْعُوْنَ يُوْسُفَ إِلٰي أَنْفُسِهِنَّ‘‘ كَذَا قَالَ وَلَيْسَ فِيْ سِيَاقِ الْآيَةِ مَا يُسَاعِدُ مَا قَالَ‘‘ [ فتح الباری:2؍153، ح : ۶۶۵ ] ’’ابن عبد السلام کی امالی میں آیا ہے کہ وہ عورتیں عزیز کی بیوی کے پاس آئیں، وہ ظاہر تو اس پر طعن و ملامت اور سختی کر رہی تھیں، حالانکہ ان کا مقصود باطن میں یہ تھا کہ وہ یوسف کو اپنی اپنی طرف دعوت دیں۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن عبد السلام نے ایسے فرمایا، حالانکہ سیاق میں کوئی ایسی چیز نہیں جو ان کی تائید کرتی ہو۔‘‘ ظاہر ہے کہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو سلطان العلماء کی بات سے اتفاق نہیں، کیونکہ ان کے خیال میں سیاق ان کی موافقت نہیں کرتا، مگر اس بندۂ عاجز نے سیاق قرآن میں سے پانچ دلیلیں اسی تفسیر کے صحیح ہونے کی بیان کی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’صَوَاحِبُ يُوْسُفَ‘‘ بھی اس کی تائید کر رہا ہے۔ (واللّٰه اعلم وعلمه اتم)