قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَن نَّفْسِي ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ أَهْلِهَا إِن كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِن قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
یوسف نے کہا اسی نے مجھے گناہ (٢٦) پر مجبور کرنا چاہا تھا، اور عورت کے خاندان والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر اس کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تو یہ سچی ہے اور یوسف جھوٹا ہے۔
1۔ قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِيْ عَنْ نَّفْسِيْ: یوسف علیہ السلام اب تک خاموش تھے اور انھوں نے خاموش ہی رہنا تھا، کیونکہ اللہ کے بندوں کی صفت پردہ پوشی ہے، مگر تہمت کے بعد خاموش رہنے کا مطلب اس الزام کو قبول کرنا تھا، اس لیے یوسف علیہ السلام نے اپنی صفائی پیش کرنا ضروری سمجھا، فرمایا اسی نے مجھے میرے نفس سے پھسلایا ہے۔ 2۔ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَا ....: عزیز مصر اور گھر کے خصوصی افراد دونوں کی بات سن کر پس و پیش میں پڑ گئے کہ کسے سچا کہیں اور کسے جھوٹا؟ کیونکہ وقوعہ کے وقت کوئی شخص پاس موجود ہی نہ تھا۔ ایسے وقت میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ موقع دیکھ کر قرائن سے فیصلہ کیا جائے، اسے قرینے کی شہادت بھی کہتے ہیں۔ دیکھا گیا تو عورت کے جسم یا لباس پر دست درازی کا کوئی نشان نہ تھا۔ ہاں، یہ بات سب کو معلوم ہو چکی تھی کہ یوسف کی قمیص پھٹی ہے۔ عزیز مصر کی بیوی کے گھر والوں میں سے ایک سمجھ دار آدمی نے فیصلہ کیا (یہاں شہادت کا لفظ قرینے پر فیصلہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے) کہ قمیص کو دیکھ کر فیصلہ کر لو۔ ظاہر ہے کہ اس آدمی نے ابھی تک قمیص دیکھی نہ تھی، ورنہ وہ یہ نہ کہتا کہ قمیص دیکھو کدھر سے پھٹی ہے، بلکہ اس نے ایک مسلمہ قاعدے کے طور پر یہ فیصلہ دیا۔ جب عزیز مصر نے قمیص دیکھی کہ پیچھے سے پھٹی ہے تو ساری بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور پھر صرف اپنی بیوی ہی نہیں سب عورتوں کے متعلق کہہ دیا کہ یقیناً یہ تمھارے فریب میں سے ایک فریب ہے، یقیناً تم عورتوں کا فریب بہت بڑا ہے۔ یہ شاہد کون تھا؟ مستدرک حاکم اور بعض دوسری کتب میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ وہ ان چار بچوں میں سے ایک تھا جنھوں نے گود میں کلام کیا۔ اس حدیث کو بہت سے اصحاب نے صحیح یا حسن کہا ہے، مگر بہت سے اصحاب نے ضعیف بھی کہا ہے۔ جن میں سے شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سرفہرست ہیں۔ دیکھیے : [سلسلة الأحاديث الضعيفة:2؍271، ح : ۸۸۰] پوری بحث وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی ’’الجواب الکافی ‘‘ میں اسے ضعیف کہا ہے۔ میری دانست میں یہی بات درست ہے کہ وہ ایک سمجھ دار آدمی تھا، کیونکہ (1) خود ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول ثقہ راویوں کے ساتھ تفسیر طبری میں ہے کہ وہ شاہد داڑھی والا مرد تھا۔ اگر ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہوتا تو وہ کبھی اس کے خلاف نہ فرماتے، جب کہ ان کا یہ قول صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔ (2) اگر دودھ پیتے بچے نے گواہی دی تھی تو یہ معجزہ خود اکیلا ہی یوسف علیہ السلام کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے کافی تھا، اس بچے کو عزیز مصر کی بیوی کا رشتہ دار بتائے جانے کی اور قمیص آگے یا پیچھے سے پھٹی ہونے کی پڑتال کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ہمارے بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اگرچہ اس بچے کا بول اٹھنا ہی بہت بڑا تھا، جس نے کلام کرنا سیکھا ہی نہیں، مگر قرآن نے اس پر اکتفا نہیں کیا، کیونکہ قرآن بنیادی طور پر دلیل یا تحقیق اور جستجو کو معیار ماننا یا منوانا چاہتا ہے۔ وہ نری تقدیس پر نہیں، تحقیق پر بنیاد رکھتا ہے۔ چنانچہ بچے نے دلیل اور مشاہدہ کو فیصلے کی بنیاد قرار دیا اور کہا : ’’(قمیص) دیکھ لو…۔‘‘ اگر یہ بات درست مانی جائے تو پھر مریم علیھا السلام کی پاک بازی کے ثبوت کے لیے بچے کے معجزۂ کلام کے سوا تحقیق کی کیا بنیاد تھی؟ اور صحیح بخاری میں مذکور جریج پر جس بچے کا باپ ہونے کا الزام لگا تھا، وہاں صرف اس بچے کے بولنے کے سوا تحقیق کی بنیاد کیا تھی؟ دونوں جگہ بچے کا بولنا ہی کافی دلیل تھا۔ 3۔ یہاں بعض لوگ عورتوں کی مذمت کے طور پر عجیب صغریٰ کبریٰ ملاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عورتوں کا مکر و فریب شیطان کے مکر وفریب سے بھی بڑا ہے، دلیل یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے کید (مکر) کو عظیم قرار دیا، جب کہ شیطان کے کید کے متعلق فرمایا : ﴿ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا ﴾ [ النساء : ۷۶ ] ’’بے شک شیطان کی چال (کید) ہمیشہ نہایت کمزور رہی ہے۔‘‘ حالانکہ یہاں سورۂ یوسف میں یہ عزیز مصر کا قول نقل ہوا ہے اور اس نے بھی اپنی بیوی کا جرم ہلکا کرنے کے لیے تمام عورتوں کو اس میں لپیٹ لیا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے اسے نقل کرکے اس پر رد نہیں فرمایا، مگر یہ قرآن کا طریقہ نہیں کہ بات سننے والے کی سمجھ میں آ رہی ہو کہ کون کہہ رہا ہے اور کیوں کہہ رہا ہے تو اس کا رد ضرور ہی کرے۔ پھر دیکھیے حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کا کید (مکر) مردوں کے مقابلے میں عظیم ہے، جب کہ شیطان کا (مکر) اللہ تعالیٰ اور اس کی راہ میں لڑنے والوں کے مقابلے میں ضعیف ہے۔ یہاں قوت و ضعف کے فریق ہی الگ الگ ہیں۔ البتہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عورتوں کے فتنے سے ہوشیار رہنے کی تاکید صحیح احادیث سے ثابت ہے، اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا تَرَكْتُ بَعْدِيْ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ)) [بخاری، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ....: ۵۰۹۶ ] ’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔‘‘ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِيْنٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ يَامَعْشَرَ النِّسَاءِ !)) [بخاری، الزکوٰۃ، باب الزکاۃ علی الأقارب : ۱۴۶۲ ] ’’میں نے عقل اور دین کی ناقص شخصیات میں سے کسی کو تمھاری کسی ایک سے زیادہ ہوشیار آدمی کی عقل کو لے جانے والا نہیں دیکھا، اے عورتو کی جماعت!‘‘ ’’اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایرانیوں کے اپنے بادشاہ کی بیٹی کو بادشاہ مقرر کرنے پر فرمایا : (( لَنْ يُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمُ امْرَأَةً)) [بخاري، المغازي، باب كتاب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم إليٰ كسرٰي و قيصر: 4425] ’’وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جنھوں نے اپنا امر (سلطنت) کسی عورت کے حوالے کر دیا۔‘‘