وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ
اور وہ رات (١٦) کو اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔
1۔ وَ جَآءُوْ اَبَاهُمْ عِشَآءً: اتنا بڑا ظلم کرنے کے بعد انھیں دن کی روشنی میں باپ کے پاس جانے کی ہمت نہیں ہوئی، کیونکہ دن کے وقت چہرے کے اثرات، جسم کا اضطراب اور زبان کا لڑکھڑانا ہی سب کچھ ظاہر کر دیتا ہے۔ اس لیے وہ عشاء کے وقت باپ کے پاس آئے۔ اکثر جرائم کے وقوع اور انھیں چھپانے کا ذریعہ رات کا اندھیرا ہی بنتا ہے، اس لیے ہم سب کو حکم ہوا کہ کہو : ﴿ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ﴾ [ الفلق : ۳ ] ’’اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے (پناہ مانگتا ہوں)۔‘‘ 2۔ يَبْكُوْنَ: ’’روتے ہوئے‘‘ معلوم ہوا ہر رونے والا سچا نہیں ہوتا۔ میں نے ایک عالم کا قول پڑھا کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے رونے کے بعد سے ہمارا اعتبار رونے والوں سے اٹھ گیا ہے، اللہ جانے کون سچا رو رہا ہے اور کون جھوٹا۔ حسین رضی اللہ عنہ کی بہن زینب رضی اللہ عنھا نے کوفے والوں کو روتے پیٹتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیوں رو رہے ہیں؟ انھیں بتایا گیا کہ یہ لوگ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر رو رہے ہیں تو وہ بے ساختہ کہنے لگیں کہ یہ لوگ ہم پر رو رہے ہیں تو ہمیں قتل کرنے والے کون ہیں؟ (یعنی کیا وہ کوفہ سے باہر کی کوئی مخلوق تھی؟ یہی تو قتل کرنے والے تھے)۔