يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
اے ایمان والو، صبر (228) اور نماز سے مدد لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (229) ہے
1۔ ذکر و شکر کے ساتھ صبر اور نماز کی تعلیم دی ہے۔ احکام شریعت پر عمل کرنے میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں اور مصائب برداشت کرنا پڑتے ہیں صبر اور نماز پر ہمیشگی ان مشکلات کا مقابلہ کرنے میں معاون ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’مومن کا معاملہ عجیب ہے، کیونکہ اس کا سارا کام ہی خیر ہے اور یہ چیز کسی اور کو حاصل نہیں ۔ (خیر اس طرح کہ) اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو شکر کرتا ہے اور وہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے خیر ہے۔‘‘ [ مسلم، الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ۲۹۹۹، عن صھیب رضی اللّٰہ عنہ ] 2۔اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے تذکرے کے بعد (جن میں بیت اللہ کو قبلہ قرار دے کر اپنی نعمت تمام کرنا اور اپنے آخری رسول کو بھیجنا شامل ہے) اپنے ذکر و شکر کا حکم دیا اور اس آیت میں مصیبتوں کے آنے پر صبر اور نماز کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا حکم ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۴۵) اگرچہ اس میں ایمان والوں پر آنے والی ہر مصیبت کا علاج بتایا گیا ہے مگر آیات کی ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کو جہاد کے لیے تیار کرنے کی تمہید ہے، کیونکہ قبلہ کی تبدیلی رجب یا شعبان ۲ ہجری میں ہوئی اور غزوۂ بدر رمضان ۲ ہجری میں ہوا۔ دونوں کے درمیان تقریباً دو ماہ کا وقفہ ہے۔ 3۔ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ : اس سے معیت خاصہ (خصوصی ساتھ) مراد ہے اور جسے اللہ کا ساتھ مل جائے اسے کیا غم ہے؟ جیسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ﴿لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا﴾ [ التوبۃ : ۴۰ ] ’’غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘ [ بخاری، المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام : ۳۶۱۵ ] مقصد یہ ہے کہ صبر کرو، تاکہ تمھیں اللہ تعالیٰ کا ساتھ نصیب ہو جائے۔